لائف سٹائل

پاکستان: افغان مہاجرین کا سوشل میڈیا کا استعمال، کتنا فائدہ مند کتنا نقصان دہ؟

 

محراب آفریدی

باقی دنیا کی طرح پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے رہن سہن میں بھی وقتاً فوقتاً تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں جن میں سے آج کل سوشل میڈیا کے استعمال کی تبدیلی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

یہاں مہاجرین سوشل میڈیا کا استعمال اگر ایک طرف انٹرٹینمنٹ/تفریح کیلئے کرتے ہیں تو دوسری طرف بہت سے افغان مہاجرین فیس بک، یوٹیوب، ٹوئٹر اور اس طرح کے دیگر پلیٹ فارمز کو معلومات کے حصول کیلئے بروئے کار لاتے ہیں۔

ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مقیم سینتالیس فیصد افغان پناہ گزین معلومات حاصل کرنے کیلئے سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں۔ چند ماہ قبل افغانستان سے پشاور آنے والے عبدالشکور بھی ان لوگوں میں شامل ہیں۔ عبدالشکور کے مطابق ٹی وی، اخبار اور ریڈیو کی نسبت سوشل میڈیا ان کے لئے نا صرف سستا اور آسان ہے بلکہ یہاں سے انہیں ضروری معلومات بھی حاصل ہو جاتی ہیں، ”سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، فیس بک اور وٹس اپ، سوشل میڈیا ہمارے لئے آسان ہے چونکہ افغان مہاجرین کی ٹی وی، ریڈیو یا اس طرح کے زرائر تک رسائی نہیں ہوتی اس لئے فیس بک اور وٹس آسان کام ہیں ان سے ہم سب کچھ حاصل کرتے ہیں، کافی معلومات ہم یہاں سے لیتے ہیں۔”

جامعہ پشاور میں زیرتعلیم افغان طالب علم صمیم احمد نے عبدالشکور اور ان کی طرح کے دیگر لاکھوں افغانوں کے لئے چار سال قبل ایک فیس بک پیج بنایا ہے جس میں صرف پاک افغان بارڈر، مہاجرین کی رجسٹریشن کے حوالے سے ہونے والے اعلانات اور ان سے متعلق اس طرح کی دیگر اہم معلومات شیئر کی جاتی ہیں۔ صمیم احمد کے مطابق ان کا مقصد اپنے ہم وطنوں کو بروقت درست معلومات دینا ہے کیونکہ چند سال قبل وہ خود اس طرح کی معلومات کے حصول کے سلسلے میں مشکلات سے گزرے ہیں، ”2016 میں جب افغان مہاجرین پر یہ مشکل وقت آیا جب پاکستانی حکومت نے مہاجرین پر زور دیا کہ آپ اپنے ملک واپس چلے جائیں، تو چونکہ اس وقت میں خود بھی چھوٹا تھا تو مجھے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، میں گیارہویں جماعت کا طالب علم تھا تو اس وقت مجھے مشکلات درپیش ہوئیں، جب میں نے اپنی مشکلات حل کیں تو میں نے چاہا کہ میرے دیگر افغان (مہاجرین) مشکلات سے دوچار نا ہوں اس جذبہ کے تحت، اس خدمت کیلئے میں نے اپنا سوشل میڈیا (استعمال) شروع کیا اور ایسے اداروں کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کیا تاکہ میں اپنے افغان مہاجرین کی خدمت کر سکوں اور انہیں (درکار) معلومات پوری طرح سے پہنچا سکوں۔”

اس فیس بک پیج کے فالورز کی تعداد بیس ہزار کے قریب ہو گئی ہے جبکہ صمیم کا کہنا ہے کہ فالورز کی بجائے وہ زیادہ توجہ اس امر کو دیتے ہیں کہ ان کے پیج پر غلط معلومات شیئر نا ہوں کیونکہ آسانی کی بجائے یہ مزید تکلیف کا باعث بنتی ہیں، ”افغان مہاجرین کے کارڈ کا مسئلہ تھا، کارڈ کے ری نیول (تجدید) کی بات تھی، وہ جب ختم ہوئے تو لوگ اب بھی پوچھتے ہیں کہ آیا یہ کارڈ اب ری نیو (نئے) ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے، اس حوالے سے معلومات کافی نہ ہوں تو ہم پھر اس سلسلے میں اداروں سے پوچھتے ہیں، یو این ایچ سی آر سے رابطہ کرتے ہیں، کمشنریٹ سے رجوع کرتے ہیں اور اس طرح دیگر متعلقہ اداروں سے معلومات حاصل کرتے ہیں کہ آیا یہ عمل اب ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، تو پھر ہم دیکھتے ہیں کہ معلومات کافی ہیں یا نہیں، جب ہم پوری طرح سے معلومات حاصل کر لیتے ہیں تو پھر انہیں شیئر کرتے ہیں۔”

انہوں نے مزید بتایا کہ مہاجرین کو اکثر رجسٹریشن کے حوالے سے معلومات درکار ہوتی ہیں اس لئے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ یو این ایچ سی آر، افغان کمشنریٹ اور افغان قونصلیٹ کی جانب سے اس سلسلے میں جو بھی معلومات ہوں، وہ انہیں شیئر کر سکیں، ”(افغانوں کو) اس طرح کی کوئی معلومات نہیں کہ جب وہ کسی دوسرے ملک جائیں تو وہاں کیسے سکونت اختیار کریں گے،  انہیں کسی قسم کی کوئی قانونی سند ملے گی، وہاں کا قانون ان کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرے گا، تو ہم انہیں ان کی رجسٹریشن کے حوالے سے روزمرہ کی بنیاد پر اپ ڈیٹس دیتے ہیں کہ آپ فلاں جگہ چلے جائیں وہاں اپنی رجسٹریشن کروائیں، اپنا نام درج کروائیں، آپ کوئی ثبوت حاصل کریں تاکہ آپ کو کل کلاں کسی مشکل کا سامنا نا کرنا پڑے۔”

افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد معلومات کیلئے سوشل میڈیا کا رخ تو کرتے ہیں تاہم افغان خواتین بہت کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ عبدالشکور کے مطابق ہجرت کرنے والی بیشتر خواتین غیرتعلیم یافتہ اور موبائل و انٹرنیٹ سروس سے محروم ہوتی ہیں، ”خواتین کا تو یہ ہے کہ مرد (حضرات) کو جو بات فیس بک سے پتہ چل جاتی ہے وہ اسے خواتین کے ساتھ شیئر کر لیتے ہیں، اور اگر کسی خاتون کو ریڈیو سے پتہ چلا ہو (تو وہ ہے) افٖغانستان کی بیس فیصد خواتین ہی تعلیم یافتہ ہیں باقیوں کے پاس تو سرے سے موبائل ہوتا ہی نہیں ہے، بس گھر پر اپنے شوہر یا کسی بڑے سے معلومات حاصل کر لیتی ہیں۔”

پاکستان کے روایتی میڈیا پر افغانوں کے حوالے سے نشر کی جانے والی خبریں نا ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے یہاں پر مقیم زیادہ تر افغانوں نے سوشل میڈیا کا رخ کیا ہے تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا اگرچہ ابلاغ عامہ کا تیز ترین و موثر ترین ضرور زریعہ ہے تاہم اس پر غلط معلومات اور اشتعال/نفرت انگیز معلومات بھی آسانی سے وائرل/عام ہوتی ہیں۔

اس حوالے سے لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے سوشل ایکٹیوسٹ اور فیس بک پر ”د لنڈی کوتل آواز” کے نام سے پیج چلانے والے خلیل جبران نے بتایا کہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب فالورز اور لائکس ان کے پیج پر موجود ہیں اور پاک افغان تعلقات اور ان دو ممالک کے حالات پر ان کا فوکس ہوتا ہے۔

ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ افغان ہمارے بھائی ہیں، ہمارا رہن سہن، رسم و رواج، غمی خوشی ایک ہے، اس کے علاوہ ان کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں، ہماری رفت آمد ہے، ان سمیت کئی حوالوں سے ہم باہم پیوستہ ہیں لہٰذا ان پر اگر کوئی اثر پڑتا ہے تو وہ ہم پر بھی پڑتا ہے اس لئے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے موثر انداز میں بات کریں، اور یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ مسائل اگر برقرار ہو تو یہ مسائل بڑھتے رہیں گے اس لئے ہم کوشش کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے عوام میں ایسی تبدیلی آئے کہ یہ تعلقات خوشگوار ہوں جس کے ساتھ روزگار کے وسائل پیدا ہو سکیں۔

خلیل جبران نے مزید بتایا کہ سوشل میڈیا پر عام آدمی اپنی آواز اٹھا سکتا ہے، اگر آپ دیکھیں تو اس پر ”ہیٹ سپیچ” اسی وجہ سے سامنے آتی ہے کہ جب بھی دونوں ممالک کے عوام کے درمیان خیالات کا ذرا سا بھی تبادلہ ہوتا ہے تو (یہ معاملہ) نفرت کی طرف چلا جاتا ہے، افغانستان کی طرف سے اگر اس طرح کا کوئی منفی پراپیگنڈا ہوتا ہے تو اسی وجہ سے کہ ہمارے بیچ جو قدر مشترکہ ہیں وہ ہم نے چھوڑ رکھی ہیں اور ہمارا بالکل بھی اس طرف دھیان نہیں ہے کہ اگر دونوں ممالک کے بیچ تعلقات خراب ہوں تو یہاں کے لوگوں کے روزگار (زیست) انتہائی متاثر ہوں گے لیکن اگر اس طرف توجہ دی جائے کہ دونوں ہمسایہ ممالک ہیں اور ان دونوں کے درمیان ایک زبردست قسم کا تعلق ہونا چاہیے تو اسی طرح سے یہ مسائل کم ہوں گے۔ اس ضمن میں سوشل میڈیا کے زریعے مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان ہماری مغربی سرحد پر واقع ہے، اگر دیکھا جائے تو دونوں ممالک تجارت کے حوالے سے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اسی لئے یہ دونوں اس تناؤ کو مستقل بنیادوں پر برقرار نہیں رکھ سکتے، اس لئے سوشل میڈیا کے زریعے دونوں ممالک (عوام) اگر حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھیں کہ ان کے بیچ کتنی تجارت ہوتی ہے، ٹرانسپورٹ، رفت آمد ہوتی ہے اور اس کے ساتھ کتننے لوگ برسرروزگار ہیں۔

خلیل جبران کے مطابق فیک نیوز بریکنگ کے چکر میں سامنے آتی ہیں، ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ خبر میں بریک کروں، ادھر اتنی معلومات ہوتی نہیں، درست معلومات کی بنیاد پر رپورٹنگ ہو تو اتنی منافرت/نفرت درمیان میں نا آئے، بریکنگ کے چکر میں، پیج کو آگے لے جانے کی کوشش میں فیک نیوز پھیلاتے ہیں جو نفرت کا باعث بنتے ہیں، جتنی نفرت ہے سوشل میڈیا کے زریعے پھیلتی ہے کیونکہ اگر حکومتی سطح پر دیکھا جائے تو دونوں ممالک کے درمیان ملاقاتیں ہو جاتی ہیں، فلیگ میٹنگز منعقد ہو جاتی ہیں تاکہ جو کمزوریاں/خامیاں ہوں انہیں دور کیا جا سکے لیکن عوام کے درمیان نفرت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر ہر کسی کو بات کرنے کی اجازت ہوتی ہے، ہر کسی کا اپنا پیج ہو سکتا ہے، اپنا یوٹیوب چینل ہو سکتا ہے جس پر وہ نفرت انگیز تقریر/مکالمہ سمیت کوئی بھی بات شیئر کر سکتا ہے، لیکن اگر اس پہلو پر غور کیا جائے کہ اس طرح کی باتوں سے دیگر لوگ کتنی تکلیف میں ہوں گے، اگر آپ فیک یوز پھیلاتے ہیں تو اس کے (لوگوں کی زندگیوں پر) کتنے برے اثرات ہوتے ہیں (تو شاید کوئی بھی فیک نیوز نا پھیلائے)، لیکن پھر ان اثرات کے لئے کوئی ایسی باڈی بھی نہیں جو ان پر پابندی لگائے یا ان کو روک کر یہ پوچھ سکے کہ (بھئی) تم کیوں اس طرح کا نفرت انگیز مواد پھیلا رہے ہو؟

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button