سانحہ کوچہ رسالدار: جب غیرقانونی افغان مہاجرین کی زندگی اور بھی مشکل ہو گئی
باختر
پشاور کی جامع مسجد کوچہ رسالدار، قصہ خوانی میں خودکش دھماکے کے بعد نا صرف اس شہر بلکہ ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے سخت اقدامات کئے گئے جن کی زد میں بیشتر وہ افغان مہاجرین آئے جو یہاں قانونی دستاویزات کے بغیر مقیم ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کے مطابق پاکستان میں 14 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین مقیم ہیں جبکہ قریباً اتنی ہی تعداد غیرقانونی افغان مہاجرین کی بھی ہے۔ گذشتہ برس سقوط کابل کے بعد تاہم مزید افغان شہریوں نے بھی پاکستان کی طرف ہجرت کی ہے جن میں سے بعض ویزہ پر جبکہ زیادہ تر بغیر دستاویزات کے سرحد کے اِس پار آئے ہیں۔
گو کہ اسلام آباد کے قریب رہائش پذیر بہشتہ ایوبی ویزہ لے کر پاکستان آئی ہیں تاہم کوچہ رسالدار دھماکہ کے بعد وہ اور ان کے خاندان کی زندگی تنگ ہو کر رہ گئی ہے، ”ہم افغانوں کے ساتھ ادھر بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ادھر ہم افغانوں کے ساتھ ایک طرح کا برتاؤ کیا جاتا ہے جبکہ پاکستانیوں کے ساتھ اور طرح کا، ہم جب آئے تو پہلے ایک ہوٹل میں کمرہ کرایہ پر لیا کیونکہ گھر کرایہ پر لینا ہمارے لئے آسان نہیں تھا، ہم افغانوں کے لئے مشکل ہوتا ہے کہ گھر کرایہ پر لے سکیں، ہمارے آنے کے دس دن بعد پشاور کی ایک مسجد میں دھماکہ ہوا جس میں کئی لوگ جاں بحق ہوئے، پاکستانی شہری سمجھتے ہیں کہ یہ دھماکہ افغانوں نے کیا ہے، اس واقعہ کے بعد افغانوں کے لئے یہاں آنا اور گھر کرایہ پر لینا اور بھی دشوار ہو گیا ہے۔”
بہشتہ خود افغانستان میں ایک صحافی جبکہ ان کے والد سرکاری ملازم تھے، یہ ایک بااثر خاندان تھا لیکن اب یہاں ویزہ پاس ہونے کے باوجود رہائش کی لئے کبھی ایک کی اور کبھی دوسرے کی منتیں کرتے ہیں، ”جس طرح کہ آپ کو پتہ ہے کہ افغانوں کیلئے دیگر ممالک جانا اور بھی مشکل ہو گیا ہے، اسی طرح میں نے بھی پاکستانی ویزے کیلئے تین ماہ انتظار کیا، بہت مشکل سے یہ ویزہ میں نے حاصل کیا ہے، بہت پیسہ خرچ کیا ہے اس پر اور کافی جدوجہد کی ہے، میں خود ایک صحافی ہوں، دفتر خارجہ میں بھی کام کیا ہے، میرے والد ایک سرکاری ملازم تھے اور بہت مشکل سے ہم افغانستان سے آئے ہیں۔”
بہشتہ ایوبی کا خاندان قانونی دستاویزات رکھنے کے باوجود اتنی مشکلوں کا سامنا کر رہا ہے جبکہ ایسے افغان جو بغیر دستاویزات کے یہاں آئے ہیں ان کی زندگی اور بھی کٹھن ہے۔
حسیب اللہ چند ماہ قبل افغاننستان سے آئے ہیں اور پشاور کے ایک بھٹہ خشت میں محنت مزدوری کرتے ہیں لیکن اس اکیسویں صدی میں بھی ان کے پاس موبائل فون ہے نا وہ بھٹہ خشت سے نکل کر کہیں باہر جا سکتے ہیں کیونکہ قانونی کاغذات ان کے پاس ہیں نہیں اور قدم قدم پر انہیں پولیس تنگ کرتی ہے، ”قانونی دستاویزات تو میرے پاس نہیں، یہاں بنتے بھی بڑی مشکل سے ہیں، ادھر اس بھٹہ خشت میں پڑے ہیں، مہاجر کارڈ تو بنتے ہیں لیکن مشکل سے اور فی الحال تو شاید اس کا اجراء معطل بھی ہے، ہمیں مشکلات بہت ہیں، بازار نہیں جا سکتے، کاروبار نہیں کر سکتے، ریڑھی نہیں لگا سکے، دکانداری نہیں کر سکتے، ایک صوبے سے دوسرے کو نہیں جا سکتے، سم نہیں نکال سکتے، بہت مشکلات ہیں، مہاجر کارڈ اگر ہمیں مل جائیں تو مشکل حل ہو سکتی ہے، فی الحال تو بہت مسائل ہیں۔”
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں حسیب اللہ نے بتایا کہ ان کی انتہائی مجبوری تھی جو وہ قانونی دستاویزات کے بغیر ادھر آئے ہیں تاہم اب ان کی خواہش ہے کہ وہ قانونی رہائش اختیار کر لیں جو فی الحال اس وجہ سے ممکن نہیں کہ یو این ایچ سی آر والے نئے افغانوں کو فی الحال کارڈ نہیں دے رہے، ”ہم ننگرہار براستہ قندھار بولدک آئے جہاں پیسے لئے جا رہے تھے، مطلب وہ لوگ ہمیں غیرمعروف راستوں سے سرحد پار لے آئے، کسی سے دس ہزار کسی سے پانچ ہزار لے کر وہ سرحد پار کرواتے ہیں، بڑی مشکلوں سے ادھر تک آئے ہیں، خرچہ تقریباً پندرہ سے بیس ہزار تک آتا ہے۔”
دوسری جانب ایس پی سٹی پشاور محمد عتقیق شاہ کے مطابق ہر اس افغان کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جاتی ہے جو غیرقانونی طور پر ادھر آیا ہوتا ہے اور صرف رواں برس ایسے ساڑھے آٹھ سو افغانوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، ”بالکل افغان مہاجرین ہمارے بھائی ہیں جو اب آ رہے ہیں یا پہلے سے ہیں، تو وہ جو غیرقانونی ہوتے ہیں جن کے پاس ڈاکیومنٹ نہیں ہوتے، پاسپورٹ ہوتا ہے نہ اجازت نامہ تو ان کے خلاف 14 فارن ایکٹ کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے، اور امسال ہم نے اب تک ایسی 848 ایف آئی آرز درج کی ہیں، مشکلات تو یہ ہیں کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ جو بندہ سرحد پار آتا ہے تو اس کے پاس اپنے ملک کا پاسپورٹ ہونا چاہیے، اس کیلئے باقاعدہ ویزہ جاری ہونا چاہئے، اور جو غیرقانونی طور پر آتے ہیں تو ظاہر ہے ان کے خلاف پھر ہم کارروائی ضرور کرتے ہیں۔”
اگرچہ دنیا کے ہر ملک میں غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف فوری طور پر کارروائی کی جاتی ہے لیکن پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا میں زرائع کا کہنا ہے اور عمومی طور پر یہ مشاہدے میں بھی آتا ہے کہ اس سلسلے میں افغان مہاجرین کے ساتھ خصوصی رعایت برتی جاتی ہے تاہم جب بھی دہشت گردی یا بدامنی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے پھر انہیں تنگ بھی کرتے ہیں۔ (اسی لئے تو) حکومتِ پاکستان اور یو این ایچ سی آر بار بار افغانوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ بغیر قانونی دستاویزات کے سرحد پار نا کیا کریں۔