پشاور: نئے افغان پناہ گزین جو دیگر مہاجرین کے لئے مثال بن گئے
حضرت علی بہیج
افغانستان میں گزشتہ سال حکومت کی تبدیلی کے بعد اگر ایک طرف پاکستان آنے والے بیشتر افغان پناہ گزین روزگار نا ہونے کا رونا رو رہے ہیں تو دوسری طرف ایسے پناہ گزین بھی ہیں جو اول الذکر افغان مہاجرین کے لئے مثال بن گئے ہیں۔
ننگرہار سے پشاور آنے والے عبدالولی بھی شروع کے پانچ ماہ کاروبار کے لئے دوڑ و دھوپ کرتے رہے تاہم (روزگار نا ملنے کی وجہ سے) بعد میں انہوں نے اپنا ایک چھوٹا سا ہوٹل کھول لیا اور اس طرح نا صرف اپنے گھر کا چولہا جلائے رکھے ہوئے ہیں بلکہ اپنے پانچ ہم وطنوں کو روزگار کی فراہمی کا وسیلہ بھی بنے ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت میں عبدالولی نے بتایا: ”ہم جب ادھر آئے تو ہمارے شروع کے دن تھے، اور آپ تو جانتے ہیں کہ ہمارے کاروبار و روزگار خراب ہو گئے تھے، ماہ ڈیڑھ ماہ تو تکلیف میں گزرا پھر ایک بندے سے بات کی، عزیز و اقارب کے ہاں رہ رہے تھے، یہاں یہ کام شروع کیا، کام نیا ہے، یہی ماہ یا کچھ زیادہ کم ہوا ہے شروع کئے ہوئے، لگے ہوئے ہیں، اپنی ہمت کر رہے ہیں تین چار بندے اپنے گھرانے سے جبکہ ایک دو بندے ساتھ اور بھی ہیں لیکن چلو وقت گزار رہے ہیں، اللہ سے امید ہے کہ یہاں ہمارے حالات میں بہتری آئے اور ہمارا یہ روزگار تھوڑا چل پڑے۔”
عبدالولی کے بقول اپنا وطن چھوڑنا اور کسی دوسرے دیس میں زندگی کی شروعات کرنا بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے تاہم انہوں نے ابھی ہمت نہیں ہاری، ”اگر مشکلات بارے بتاؤں تو ایسی مشکلات کا اس سے قبل سامنا کبھی نہیں کیا تھا لیکن اک مسافت تھی، مجبوری تھی، ہمارے تو یہ گمان میں بھی نہیں تھا، حالات چلو پھر بھی اچھے ہیں لیکن ہم سوچ رہے تھے کہ جانے کیا حال ہو گا، کیا صورت بنے گی، خیر بڑی مشکل سے اِس پار آئے، لیکن خیر گزارہ چل رہا ہے، اللہ کے بڑے شکرگزار ہیں، اس لئے کہ مشکلات کا تو آپ کو پتہ ہی ہے۔”
سرکاری اعدا و شمار کے مطابق پاکستان میں چودہ لاکھ کے قریب افغان مہاجرین مقیم ہیں اور لگ بھگ اتنے ہی غیرقانونی طور پر رہائش پذیر ہیں۔ افغانستان میں حالیہ ”تبدیلی” کے بعد ہزاروں دیگر افغان بھی سرحد کے اِس پار آئے ہیں۔ یہ افغان پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیتے ہیں اور یہی خیال اب عبدالولی کا بھی ہے جن کے قول یہاں کے عوام اس طرح سے معتصب بالکل بھی نہیں ہیں جس طرح کے ان کے ملک میں افواہیں پھیلی تھیں۔
انہوں نے بتایا: ”جب کوئی کسی ملک کی طرف ہجرت کرتا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ بہت مشکل زندگی کا اسے سامنا کرنا پڑتا ہے، بہرکیف وہ (دیگر افغان) بے فکر ہو کر آئیں، اللہ کرے کہ یہاں امن سکون رہے، مہاجرین پر اللہ نے رحم کیا ہے کہ وہ یہاں آتے ہیں، یہاں گزر بسر ہو ہی جاتی ہے، ہم یہاں کے عوام کے مشکور ہیں۔”
افغانستان سے آئے ضابط خان بھی عبدالولی کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے یہ اضافہ کرتے ہیں کہ بالخصوص پشتونوں نے یہاں ہمیشہ ان (افغانوں) کا خیرمقدم کیا ہے، ”الحمدللہ! رویہ نہایت ہی خوشگوار ہے، (وہ اس لئے کہ) ایک تو ہم سب پشتون ہیں دوسرے ہم سب مسلمان، کلمہ گو بھائی ہیں، ہم نے اک ساتھ زندگی گزاری ہے، انہوں نے ہم پر بہت احسان کئے ہیں، اب بھی کرتے ہیں اور انشاءاللہ آئندہ بھی کریں گے، اور پشاور جو ہے یہ تو افغانوں کا ایک گھر ہے میرے بھائی، ہم جب بھی یہاں آئے ہیں انہوں نے ہمیشہ لبیک کہا ہے۔”
ضابط خان بھی تین ماہ قبل ننگرہار سے آئے ہیں اور پشاور کے علاقے چغلپورہ میں کباڑ (جوتوں) کی دکان کھولی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنے ملک میں کاشتکاری کرتے تھے لیکن حالات تبدیل ہونے کے بعد وہاں مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی تو مجبوراً یہاں آئے، اب یہاں روزگار سے ان کا گزارہ تو چل رہا ہے لیکن وہ مطمئن نہیں ہیں، ”پہلے پہل جب ادھر آئے پہلے پندرہ روز تک تو یونہی پھرتے رہے، پندرہ دن کے بعد یہاں کباڑ کے چپل اور جوتوں کا کاروبار کھول لیا ہے اور اسی میں مصروف ہیں، الحمدللہ گزارہ تو ہوتا ہے، وقتی طور پر گزربسر ہو رہی ہے لیکن بچت کا کوئی چانس نہیں، تو مشکلات اور تکالیف تو بہت ہیں، جیسے مہنگائی ہو گئی، بجلی کا بل ہو گیا، گیس کا بل وغیرہ وغیرہ، ڈاکٹروں کی دوائیاں، سبھی چیزیں مہنگی ہوئی جا رہی ہیں، تو اس پر ہمارا اتنا گزارہ ہو رہا ہے کہ سانس (و جسم کا رشتہ) قائم رکھے ہوئے ہیں اور سردست اس کے ساتھ ہماری مشکل حل ہے لیکن ایسا ہے کہ بیماری آ جاتی ہے، غمی خوشی آتی ہے تو اس حوالے سے یہ ہے کہ ہماری زندگی کا معیار تاحال ٹھیک نہیں، لیکن ایسا ہے کہ فی الحال ہمارا گزارہ چل رہا ہے۔ وہاں ہم کھیتی باڑی کرتے تھے، اس سے روزی روٹی مل جاتی تھی لیکن جب وہاں حکومت تبدیل ہوئی، افغانستان پر پابندیاں عائد ہوئیں تو ہر چیز کی قیمتیں بڑھنا شروع ہو گئیں، اتنی کہ سال گزار کر بھی کوئی تخم اور کھیت پر اٹھے دیگر اخراجات بھی پورے نہیں کر سکتا، تو اس لئے ہمیں وہ (پیشہ) چھوڑنا پڑا کہ اس سے خرچ بھی پورا نہیں ہوتا تھا لہٰذا ہم وہ چھوڑنے اور یہاں پاکستان آںے پر مجبور ہوئے کیونکہ خاندان بڑا ہے اور وہاں ہمارا گزارہ نہیں ہو رہا تھا۔”
ضابط خان اور عبدالولی کی طرح کے افغان مہاجرین نے پاکستان آمد پر اپنے کاروبار تو شروع کر رکھے ہیں تاہم قانونی دستاویزات نا ہونے کی وجہ سے انہیں مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ اس سلسلے میں وہ حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ تعاون کیا جائے اور انہیں کاروباری سہولیات فراہم کی جائیں۔