خاتون قاضی سے پڑھوایا سابق بھارتی صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کے پڑپوتے نے اپنا نکاح
لائبہ حسن
معمول سے ہٹ کر، سابق ہندوستانی صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کے پڑپوتے نے اپنا نکاح ایک خاتون قاضی سے پڑھوایا، یہ کردار روایتی طور پر مردوں کو تفویض کیا جاتا ہے۔
جبران ریحان رحمان حال ہی میں سینئر بھارتی صحافی قربان علی کی بیٹی ارسیلا علی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ہیں۔ ”دی ہندو” میں شائع خبر کے مطابق تقریب ملک کے پلاننگ کمیشن کی سابق رکن، ڈاکٹر سیدہ سیدالدین حمید نے انجام دی تھی۔
نکاح کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر حمید نے بتایا، "نکاح نامہ میں بیان کردہ شرائط مسلم ویمنز فورم کے زیر اہتمام تیار کی گئی تھیں، ایک تنظیم جس کے دولہا کی نانی، بیگم سعیدہ خورشید بانی صدر تھیں۔
دلہن کے والد نے انکشاف کیا کہ ایک خاتون قاضی سے نکاح کرانے کا خیال ابتدائی طور پر دلہن کا تھا، جس پر دولہا بھی رضامند تھا۔ انہوں نے بتایا، ’’ہندوستانی اسلامی معاشرے میں خاتون قاضی کا کوئی تصور نہیں تھا اس لیے ہم ایک نئی شروعات کرنا چاہتے ہیں اور جب ہم برابری کی بات کرتے ہیں تو پھر خاتون قاضی کیوں نہیں؟‘‘
نکاح نامے کی اہمیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر حمید نے بتایا کہ اقرارنامہ (معاہدہ) شادی شدہ زندگی کے تمام پہلوؤں کے احترام اور احترام کے ساتھ مساوی حقوق اور ذمہ داریوں سے متعلق دولہا اور دلہن کی طرف سے باہمی طور پر متفق ہونے والی شرائط کو درج کرتا ہے۔”
ڈاکٹر حمید کی شادی کی تقریب انجام دینے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو گئی، اس کلپ کو مختلف ہندوستانی اشاعتوں نے بھی شیئر کیا۔
کیا شریعت میں عورت قاضی کی اجازت ہے؟
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں مولانا خانزیب نے بتایا کہ اسلام میں کسی قسم کی کوئی ممانعت نہیں ہے کہ عورت نکاح نامہ پڑھائے، نکاح میں سب سے اولین شرط مرد اور عورت کی رضامندی اور گواہان کی موجودگی ہوتی ہے، عورت اگر نکاح پڑھائے اور اس نکاح میں لڑکا لڑکی کی رضا اور گواہان موجود ہوں تو وہ نکاح اللہ کے فضل سے ہو جاتا ہے۔
سماجی کارکن نائلہ الطاف نے بتایا کہ ہمارے ملک میں خواتین اپنے اسلامی حقوق سے لا علم ہیں، اسلام نے ہمیں جو حقوق دیئے ہیں وہی ہمارے اصلی حقوق ہیں اگر ہم انہیں پڑھیں اور ان پر عمل کریں یہاں تک کہ شریعت میں ایک عورت کا کسی دوسرے مرد اور عورت کا نکاح پڑھانے پر کوئی پابندی نہیں، عورت کو مرد کے برابر درجہ دیا گیا ہے، ہندوستان میں رہنے والی خواتین اپنے حقوق سے باخبر ہیں اور ایک قاضی تک کا کردار ادا کر رہی ہیں تو پھر ہماری خواتین ایک اسلامی ملک میں رہ کر اپنے آپ کو پہچان نہیں پا رہی ہیں، ایسا کیوں؟ اس لئے ہمارے ملک کی خواتین کو چاہئے کہ وہ خود کو پہجانیں اور آگے بڑھیں۔