کیا افغانستان پاکستان کے دریاؤں کا پانی روک سکتا ہے؟
شاہد خان
پاکستان اور افغانستان صدیوں سے دریائے کابل سمیت دیگر 9 مشترکہ دریاؤں کا پانی اپنی اپنی حدود میں استعمال کرتے ہیں لیکن پاکستان اور افغانستان کے مابین پانی سے متعلق کوئی بھی بین الاقوامی یا دوطرفہ معاہدہ نہیں ہوا ہے جو کہ مستقبل میں دونوں ممالک میں مسائل کو جنم دے سکتا ہے کیونکہ مستقبل میں دونوں ملکوں میں پانی پر انحصار بڑھے گا۔
ورلڈ بینک نے 2010ء میں اپنی سروے رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں زیرزمین پانی پر مقامی آبادی کا انحصار آئے روز بڑھتا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان کے علاوہ 145 ممالک 276 دریاؤں کے پانی کو اپنی اپنی حدود میں مشترکہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین پانی کے قضیے کو حل کرنے کے لئے متعدد بار کوششیں کی گئیں لیکن دونوں ممالک کے مابین غیرسنجیدہ رویہ اور علاقائی طور پر خراب حالات کے باعث کوئی معاہدہ نہیں ہو پایا۔
دریائے کابل جلال آباد سے قبائلی ضلع خیبر کے علاقہ شلمان کی حدود میں پاکستان داخل ہوتا ہے لیکن یہ دریا ابتدائی طور پر پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں کوہ ہندوکش سے شروع ہو کر چترال سے ہوتا ہوا افغان صوبہ کنڑ میں داخل ہوتا ہے۔ یہ مشرقی کابل سے ہوتے ہوئے جلال آباد سے واپس پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔
1960ء میں پاکستان نے دریائے کابل پر ورسک کے مقام پر 250 میگاواٹ صلاحیت کا ورسک ڈیم تعمیر کیا لیکن کچھ عرصے بعد سلٹ کے باعث یہ ڈیم بھر گیا اور اب اس میں پانی ذخیرہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
دریائے کابل خیبر پختونخوا میں ایک لاکھ 19 ہزار ایکڑ اراضی کو سیراب کرتا ہے۔ افغانستان میں اس دریا میں 2 ہزار 190 کیوبک میٹر پانی ہوتا ہے جسے مقامی طور پر لال پورہ اور دیگر علاقوں میں آبپاشی کےلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں عمومی طور پر داخل ہونے کے بعد دریائے کابل میں پانی کی اوسطاً ایک ہزار 378 کیوبک میٹر ہوتی ہے۔
محکمہ توانائی کے سابق سیکرٹری انجینئر نعیم کہتے ہیں کہ دریائے کابل افغانستان کے 12 فیصد علاقے کو سیراب کرتا ہے، افغان حکومت نے سابق دور میں دریائے کابل پر افغانستان کی حدود میں بیس ڈیموں کی تعمیر کا منصوبہ بنایا تھا جسے تاحال عملی شکل نہیں دی جا سکی لیکن یہ ڈیم دریائے کابل کے چار سے پانچ فیصد پانی کو استعمال کر سکتے ہیں باقی پانی ازخود پاکستان کی حدود میں داخل ہو گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ افغانستان کی حدود میں دریائے کابل کو کسی بھی اور طرف نہیں موڑا جا سکتا، اس کا واحد راستہ پاکستان میں داخلے کا ہے، پاکستان نے کچھ عرصہ قبل اپنے لئے ایک سروے رپورٹ تیار کی تھی کہ جس میں بتایا گیا تھا کہ دریائے چترال کا پانی ایک ٹنل کے ذریعے دیر کے دریائے پنجکوڑہ میں لایا جا سکتا ہے لیکن پاکستان کبھی بھی ایسا نہیں کرے گا کیونکہ دریا کا اپنا ایک بہاؤ ہوتا ہے اور افغانستان کے تمام ڈیم بڑے پیمانے پر پانی کو روکنے کی بجائے صرف بہاؤ کے لئے تعمیر کئے جا سکتے ہیں، پاکستان میں داخلے کے بعد اسے آبپاشی کے مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے، پشاور کی 80 فیصد، چارسدہ 85 اور نوشہرہ کی 47 فیصد اراضی دریائے کابل سے سیراب ہوتی ہے۔
انجینئر نعیم نے بتایا کہ پاکستان میں سطحی پانی کی مقدار 145 ملین ایکڑ ہے جس میں تقریباً 17 ملین ایکڑ پانی دریائے کابل کا ہوتا ہے، خوست سے دریائے شامل کا پانی شمالی وزیرستان میں داخل ہو کر بنوں تک پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ پکتیا کے دریائے کرم کا پانی قبائلی ضلع کرم کے راستے 80 ہزار ایکڑ اراضی کو سیراب کرتا ہے، غزنی کے چشموں سے نکلتا ہوا دریائے گومل کا پانی پکتیا سے ہوتا ہوا جنوبی وزیرستان میں داخل ہوتا ہے، ڈیرہ کے مقام پر اس پر گومل زام ڈیم تعمیر کیا گیا ہے۔
پانی کے متعلق بین الاقوامی معاہدے
1997ء میں پانی سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کے آرٹیکل پانچ اور چھ، 1911 کے میڈرڈ ڈکلیئریشن، 1966 کے ہیلنسکی رولز، 2004ء کے برلن رولز اور دیگر کئی بین الاقوامی قوانین میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ پانی کسی بھی ملک سے اگر دوسرے ملک میں داخل ہوتا ہے تو داخل ہوتے ہی یہ اس ملک کا اثاثہ بن جاتا ہے اور پھر یہ اس ملک کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ جس طریقے سے بھی اسے استعمال کر سکے۔
آبی ماہرین کے مطابق افغانستان کی حکومت کبھی بھی دریائے کابل پر پاکستان کی حدود میں کسی ڈیم، بیراج یا کسی بھی دوسری عمارت کی تعمیر سے متعلق پاکستان کو نہیں روک سکتی، اسی طرح پاکستان بھی افغانستان کی حدود میں دریائے کابل پر افغان حکومت کو کسی بھی ڈیم یا ہائیڈرو پاور سٹیشن کی تعمیر سے نہیں روک سکتا، پاکستان اگر ہندوستان کے مطابق سندھ طاس کامعاہدہ کر سکتا ہے تو افغانستان کے ساتھ بھی اس نوعیت کا معاہدہ ہونا چاہئے تاکہ مستقبل میں دونوں ممالک کے مابین پانی کے استعمال کو مشترکہ مفادات کے لئے استعمال کیا جا سکے۔
انجینئر نعیم ایک قدم آگے جا کر بتاتے ہیں کہ پاکستان کو افغانستان کی حدود میں ڈیموں کی تعمیر پر سرمایہ کاری کرنی چاہئے، اس سے دونوں ممالک کے تعلقات بھی بہتر ہوں گے اور پاکستان کے استعمال کے متعلق غلط فہمیوں کا بھی خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین 2003 بعدازاں 2005 اور پھر 2011 میں مشترکہ دریاؤں کے موضوع پر بات چیت کے آغاز کی کوشش کی گئی لیکن بارآور ثابت نہ ہو سکی، 2013 اور 2019 میں دوبارہ اس نوعیت کی کوششیں کی گئی لیکن کسی بھی معاہدے کو حتمی شکل نہیں دی جا سکی۔
پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام کئی عشروں سے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے لیکن اس نظام کا ایک بڑا حصہ آزادی سے قبل تعمیر کیا گیا تھا۔
دستاویزات کے مطابق اس وقت امریکہ نے مختلف منصوبوں کے ذریعے نو سو دنوں کے لئے اپنے سطحی پانی کو ذخیرہ کر رکھا ہے، مصر نے سات سو دنوں اور ہندوستان نے 140 دنوں تک کا پانی ذخیرہ کر رکھا ہے لیکن طویل عرصے سے پاکستان نے صرف 30 دنوں کا پانی ذخیرہ کیا ہوا ہے۔ پرویزمشرف اور بعدازاں نواز شریف کے دور حکومت میں پانی کو ذخیرہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
اس وقت پاکستان اپنے زیراستعمال پانی کا صرف دس فیصد پانی ذخیرہ کر سکتا ہے جبکہ بین الاقوامی ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کو کم از کم چالیس فیصد پانی ذخیرہ کرنا چاہئے۔ رپورٹس کے مطابق پاکستان جس حد تک اپنے پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس سے دگنا پانی مسلسل ضائع ہو رہا ہے جس کا طویل عرصے سے کسی کو ادراک نہیں۔