فہیمہ بی بی: ”پہلی بار اک بڑے مسئلے میں کود پڑی تو سب نے تنقید کا نشانہ بنایا”
کیف آفریدی
مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اپنے علاقے کے تمام تر مسائل حل کرنے والی مردان کی رہاشی فہیمہ بی بی اپنے معاشرے میں ایک الگ مقام رکھتی ہیں۔ علاقہ پیکٹ گنج میں زندگی بسر کرنی والی فہیمہ بی بی سال دو ہزار پانج میں پہلی بار زنانہ کونسلر بنیں اور اپنے علاقے کے تمام تر مسائل حل کرنے میں دن رات لگی رہیں۔
فہیمہ کہتی ہیں کہ معاشرے میں خاتون کا ایسا رول ماڈل بننا اتنا آسان نہیں ہے، ”مردوں کے ساتھ جرگوں میں بیٹھنا، عورتوں کے مسائل حل کرنا، بے سہارا خواتین کے مسائل عدالتوں تک لے جانا شاید کسی عورت کے بس کی بات ہو۔” علاقے میں جب بھی ساس بہو یا دوسری عورتوں کی آپس میں کوئی لڑائی او ناچاقی آ جاتی ہے تو وہ اس کا آسان حل نکال لیتی ہیں۔ پہلی بار جب اپنے خاندان کے ایک بڑے مسئلے میں کود پڑیں تو سب نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا لیکن وہ مسئلہ جب ان کی کوششوں کی وجہ سے حل ہوا تو تنقید والوں کو حیرانی ہوئی اور سب ان کا کردار ماننے پر مجبور ہو گئے۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں پچپن سالہ فہیمہ نے بتایا کہ شروع شروع میں ان کے اندر ایک جذبہ تھا کہ وہ اپنی صلاحیت معاشرے کے سامنے رکھ سکے اور یہ ممکن نہیں تھا اگر ان کا شوہر ان کا ساتھ نہ دیتے۔ ان کے شریک حیات ہی کی وجہ سے میدان میں آئیں اور ان تمام مشکلات کا مقابلہ کیا جو کسی عورت کے لیے پشتون جیسے معاشرے میں آسان نہیں ہوتا، ”لوگوں کی وہ باتیں اب بھی یاد ہیں جو وہ کہا کرتے تھے کہ عورت کیا جرگے کے مسائل حل کرے گی، یہ تو ممکن ہی نہیں اور نا ایسا کبھی ہوا ہے لیکن اللہ تعالی کے فضل سے میں نے ہمت باندھ لی اور اس ناممکن کو ممکن بنا ڈالا۔”
فہیمہ بی بی نے مزید بتایا کہ انہوں نے کئی غیرسرکاری تنظیموں کے ساتھ ٹریننگ سیشن لئے ہیں جس سے ان کو بہت فائدہ ہوا اور اس کے ثمرات یوں نکلے کہ علاقہ مکینوں میں عورتوں کے ووٹ کے اندراج اور اپنی رائے استعمال کرنے کی قدر ڈالی اور یہی وجہ تھی کہ 19 دسمبر 2021 کو خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اسی حلقہ پیکٹ گنج میں خواتین نے زیادہ ووٹ ڈالے۔
اکثر اپنے اردگرد علاقوں میں جب بھی کوئی ناچاقی آ جاتی ہے کوئی عورت لڑائی جھگڑے کی وجہ سے میکے چلی جاتی ہے تو ہم ان مسائل کو افہام و تفہیم کے زریعے حل کرتے اور یوں راضی نامہ ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خلع، وراثت اور سورہ جیسے مسائل بھی حل کیے ہیں اور خواتین کی نمائندگی کر کے ان کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کا حق دیا ہے جس سے جھگڑے اور فساد ختم ہو جاتے ہیں۔
فہیمہ بی بی نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوۓ کہا کہ شروع میں جب وہ کسی کام کے واسطے گھر سے نکلتی تھیں تو لوگ ان کے پیچھے طرح طرح کی باتیں کیا کرتے تھے پر انہوں نے ان کی پرواہ نہیں کی اور یہی وجہ ہے کہ آج وہ تمام لوگ انہیں اپنے مسائل حل کرانے کے لیے بلاتے ہیں۔
فہیمہ کہتی ہیں کہ خواتین زندگی کے ہر شعبے میں مردوں سے کم نہیں پر معاشرہ ان کو آگے بڑھنے نہیں دیتا۔ لیکن انہیں یقین ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب کم ذہن والے لوگ اس بات کو تسلیم کریں گے کہ عورت کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن نہیں رہ سکتا اور دوسرے ممالک کی طرح انہیں بھی زندگی کے ہر کام میں مواقع دیئے جائیں گے۔ انسانی خدمت کرنا عبادت ہے اور فہیمہ اس کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتی ہیں۔
پاکستان کی تقریباً 52 فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے، ایک اندازے کے مطابق ان میں سے برسر روزگار خواتین مجموعی تعداد کا ایک فیصد بھی نہیں بنتیں۔ کاروبار کرنے والی خواتین کی تعداد تو آٹے میں نمک کے برابر ہے جبکہ ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد کُل آبادی کا ڈیڑھ یا دو فیصد ہے۔ خواتین کے لیے تعلیمی اور تربیتی اداروں میں اضافے سے پیشہ ورانہ زندگی کے مختلف شعبوں میں خواتین کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے اور وہ ملک کی معاشی یا معاشرتی ترقی میں اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کر رہی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملازمت پیشہ اور کاروباری خواتین کو مساوی حقوق و مواقع فراہم کئے جائیں، حکومت ان کی سرپرستی کرے اور ایسی خواتین جن میں تمام تر صلاحیتیں اور خصوصیات ہوں، ان کی مثبت اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں خواتین کی نمائندگی کو ترجیح دی جائے تاکہ ذہین اور باہمت خواتین کو زندگی کے کسی بھی میدان میں کوئی دشواری سامنے نہ آئے۔ اور یہ تب ممکن ہو گا جب مرد ان خواتین کے اس جذبے کو فوقیت دیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ پھر وہ دن دور نہیں کہ پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کیا جائے گا۔