خیبر پختونخوا: بے وقت بارشوں اور کھاد کے بڑھتے نرخوں نے کاشتکار کا جینا محال کر دیا
عبدالستار
ضلع مردان کی تحصیل کاٹلنگ کے علاقہ پلو کے رہائشی احسان علی کاشتکار ہیں اور پورے کنبے کے اخراجات کاشتکاری سے پورا کرتے پیں۔ انہوں نے ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پانچ بھائی ہیں جن میں تین شادی شدہ ہیں اور سب اک ساتھ جائنٹ فیملی میں رہتے ہیں۔
35 سالہ احسان علی نے کہا کہ پہلے ان کے والد زمینداری کا کام سنبھالتے تھے، اب انہیں ساری ذمہ داری دے دی گئی ہے، ”ہم زیادہ تر گندم، مکئی اور گنے کی فصل اگاتے ہیں اور پندہ تک افراد پر مشتمل کنبے کے معاش کا انحصار اسی پر ہوتا ہے لیکن چند سال سے ہم مسلسل نقصان میں جا رہے ہیں، ”پہلے ایک جریب زمین سے ہم آٹھ سے دس بوری گڑ حاصل کرتے تھے اب اس سال ایک جریب سے ہمیں دو بوری گڑ حاصل ہوا ہے، ایک بوری میں 80 کلو تک گڑ ہوتا ہے۔”
احسان علی نے کہا کہ پانچ سال پہلے ہمیں ایک جریب زمین سے دس سے پندرہ بوری تک ملتی تھی جو بتدریج کم ہوتی رہی اور اب اس سال بہت زیادہ کم پیداوار حاصل کی۔
فصل کی کم پیداوار کی وجہ کیا ہے؟
کاشتکار احسان علی نے کہا کہ یہ سال تو کاشتکار کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہوا ہے، پہلے مکئی کی فصل پانی کی کمی کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہوئی اور بارشیں اپنے وقت پر نہیں ہوئیں تو مختلف بیماریوں نے فصل کو متاثر کیا اور مکئی فصل جس کا تخم بھی بہت مہنگا ملتا ہے، اس کی آدھی سے بھی کم پیداوار حاصل ہوئی، اس کے بعد گنے کی فصل بھی خراب ہوئی کیونکہ بارشیں جب بہت دنوں تک نہیں ہوتیں پھر اگر ہم پانی بھی دیں تو فصل پر خشک سالی کا اثر ہوتا ہے اور مختلف کیڑے فصل پر حملہ آور ہوتے ہیں، گنے پر "پرکے” نامی حشرات نے حملہ کیا اور گنے کی فصل کی پیداوار کم ہوئی۔
نوجوان کاشتکار نے کہا کہ اس سال زمیندار نہ صرف قدرتی مسائل کا شکار رہے بلکہ تخم کے تیز نرخ کے علاوہ کھادوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگیں، جب ہمیں یوریا کی ضرورت تھی تو اس کی قیمت تین ہزار سے اوپر تھی، اب جب وقت چلا گیا تو قیمت کم ہوتی جا رہی ہے، اس کے علاوہ ڈی اے پی کھاد فصل کو دینا تو اب کاشتکار کے بس کی بات نہیں رہی اور اس طرح ڈیزل کی قمیت کی وجہ سے بھی مزید تنگدستی آ گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس اپنی زمین نہیں ہے، کچھ زمین اجارہ یعنی ٹھیکے پر لی ہے اور کچھ مالک کے ساتھ آدھے منافع پر سنبھال لیتے ہیں اور جب اس کی آمدنی کا یہ حال ہوتا ہے تو کاشتکار مشکل سے آسودہ حال ہو گا۔
احسان علی کے مطابق ان کے علاقے میں نہری نظام بھی خراب ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پانی ضائع ہو کر بہت کم ہماری فصلوں تک پہنچتا ہے، بارشیں بھی ضروت کے وقت نہیں ہوتیں اور جب پانی کی ضرورت نہیں ہوتی تو بارشیں بھی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر فصلوں کو فائدے کی بجائے نقصان ہو جاتا ہے۔”
دوسری جانب مردان زرعی دفتر کے سینئر اہلکار اور ماہر زراعت محمد وسیم نے اس حوالے سے بتایا کہ اب ہمارے کاشتکار کو کلائمیٹ چینج نے بہت متاثر کر دیا اور اس حوالے سے ایگریکلچر ریسرچ کو میٹرولوجی ڈپارٹمنٹ کے ڈیٹا پر ریسرچ کرنی چاہیے تاکہ کاشتکار کو موسمی تغیر کے حولے سے تخم کی ورائٹی مہیا کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال تو گندم کی پیداور اتنی متاثر نہیں تھی لیکن اس سے اگلے سال بہت زیادہ متاثر ہوئی تھی، اس کے علاوہ اس سال مکئی اور گنے کی فصل خراب ہو چکی ہے۔
محمد وسیم کے مطابق محکمہ زراعت کو موجودہ بارشوں کی وجہ سے سن فلاور فصل کا ٹارگٹ پورا کرنے میں بھی دشواری کا سامنا ہے، ”موجودہ بارشیں یہ موسم سرما کے پوہ اور ماکھ کی بارشیں ہیں جو لیٹ ہو کر اب برستی ہیں جس کی وجہ سے وہ گندم جو پولینیشن میں ہے اس کی فرٹلائزیشن نہیں ہو سکے گی اور اس کی پیداوار متاثر ہو گی جبکہ میوہ جات میں جس باغ میں پھول لگ چکے ہوں وہ جھڑ جاتے ہیں، ان کی پیداوار بھی متاثر ہو سکتی ہے۔”
ماہر زراعت نے بتایا کہ یہ سب کلائمیٹ چینج کے اثرات ہیں، بارش کے بعد اب سورج تیز شعاؤں کے ساتھ نکلے گا جس کے ساتھ گندم کی فصل میں فنگل گروتھ کے لئے موزوں حالات ہوں گے اور فصل کو رسٹ (سرخی) کی بیماری لگ جائے گی اور پیداوار متاثر ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں پچیس سے تیس لاکھ ایکڑ پر گندم کاشت کی جاتی ہے اور ایک ایکڑ سے 25 من تک گندم حاصل کی جاتی ہے۔
خیال رہے کہ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے لیکن کاشتکار اور کاشتکاری کو توجہ نہ دینے کی وجہ سے ہر سال ہم لاکھوں ٹن گندم دوسرے ملکوں سے برآمد کرتے ہیں، پچھلے سال پاکستان نے یوکرین سے گندم برآمد کی تھی، اب یوکرین پر حملے کے ساتھ ہی پاکستانی میڈیا میں گندم کے نرخ بڑھنے کے خدشات کے حوالے سے خبریں چلنے لگی ہیں۔