ریڈیو کا عالمی دن: بصارت سے محروم خیبر پختونخوا کی پہلی آر جے ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیوں ہوئیں؟
سلمان یوسفزے
‘میں ایک مڈل کلاس خاندان سے تعلق رکھتی ہوں، ہم چار بہن بھائی پیدائشی طور پر نابینا ہیں، ریڈیو میں مجھے جو تنخواہ دی جاتی تھی اس سے میری بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتی تھیں، مجھے ٹرانسپورٹیشن کا بھی مسئلہ تھا، شروع میں وہ مجھے پک ان ڈراپ کرتے تھے لیکن بعد میں کچھ وجوہات کی بنا پر انہوں نے مجھے پک اینڈ ڈراپ کرنا چھوڑ دیا اور لوکل ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا میرے لئے مشکل ہو گیا تھا اس وجہ سے میں نے ریڈیو میں کام کرنا چھوڑ دیا۔‘
ٹی این این کے ساتھ ہوئی یہ گفتگو خیبر پختونخوا کے ضلع مردان شیر گڑھ سے تعلق رکھنے والی ریحانہ گل کی ہے جنہوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ دو سالوں سے پختونخوا ریڈیو ایف ایم 92.2 میں بطور آر جے اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھیں، اپنے ہفتہ وار پروگرام ‘مشالونہ’ میں صوبہ بھر کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے معذور افراد کو مدعو کرتی تھیں اور معاشرے میں خصوصی افراد کو درپیش مسائل کو نہ صرف اجاگر کرتی تھیں بلکہ ان کی درد بھری کہانیاں لوگوں کے لئے مثال بنا کر پیش کرتی تھیں۔
‘میں جب ریڈیو پر پروگرام کرتی تھی تو شروع میں مجھے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ میں ایک پشتو پروگرام کی میزبان تھی اور پروگرام کا سکرپٹ مجھے خود پشتو میں لکھنا پڑتا تھا تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نے پشتو لکھنا بھی سیکھ لیا۔’ ریحانہ نے اپنے کرئیر کے آغاز کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا۔
پشاور یونیوسٹی میں شعبہ کریمینالوجی کی طالبہ ریحانہ کے بقول ریڈیو پختونخوا میں انہیں ایک پروگرام کے آٹھ سو روپے جبکہ مہینے کے 3200 سو روپے دیے جاتے تھے جس میں بارہ سو روپے مہینہ وہ رکشہ والے کو کرایہ دیتی تھیں جبکہ تنخواہ بھی انہیں دو یا تین مہینے بعد دی جاتی تھی اور اس سے ٹیکس بھی لیا جاتا تھا تو بمشکل دو تین مہینوں میں دو تین ہزار روپے بچ جاتے تھے۔
ریحانہ کے مطابق انہیں بچپن سے ریڈٰیو سننے کا شوق تھا کیونکہ بصارت سے محروم افراد کے پاس صرف ایک ہی ذریعہ سننے کا ہوتا ہے اور روزمرہ کے زیادہ تر کام سننے کی مدد سے کرتے ہیں تو میں بھی جب فارغ ہوتی تھی تو زیادہ تر ریڈیو پروگرام سنتی تھی۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر حکومت انہیں اور بصارت سے محروم ان جیسے دیگر افراد کو مستقل نوکری دے تو ممکن ہے کہ مستقبل میں ان کی معاشی مشکلات حل ہو جائیں۔
ریحانہ گل کا ماننا ہے کہ بصارت سے محروم ہونا ان کے لیے اب کسی چیز میں رکاوٹ نہیں ہے اور یہی سوچ وہ ان لوگوں تک منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہیں جو ان کی بات سنتے ہیں، ‘ہمیں معذور افراد کو اُن کی صلاحیتوں سے روشناس کرانا چاہئے اور انہیں بتانا چاہئے کہ اس دنیا میں کوئی چیز بھی ناممکن نہیں ہے۔”
ریحانہ گل نے بتایا کہ خیبر پختونخوا کے زیادہ تر علاقے انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں اس لئے دوردراز اور پسماندہ علاقوں کے لوگ (جن میں زیادہ تر گھریلو خواتین شامل ہیں) ریڈیو سنتے ہیں اور ریڈیو کے ذریعے معلومات ان تک پہنچتی ہیں۔
ریحانہ کے مطابق پختون معاشرے میں زیادہ تر خواتین کو موبائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اس لئے وہ زیادہ تر وقت ریڈیو ہی سنتی ہیں تاہم اگر ریڈیو کے ذریعے انہیں مفید پروگرام مہیا کیے جائیں تو وہ بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں اور معاشرے کی تعمیر اور ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔
پاکستانی میڈیا میں خصوصی افراد کے لئے کیا مواقع ہیں؟
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت کے دوران پشاور یونیورسٹی میں شعبہ صحافت و ابلاغ عامہ کے پروفیسر ڈاکٹر عرفان اشرف نے بتایا کہ یہ ایک بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ نہ صرف پاکستانی میڈیا بلکہ سرکاری اداروں میں خصوصی افراد کے لئے کوئی سہولیات موجود نہیں ہیں کیونکہ ہماری معاشرتی سوچ ایسی بنائی گئی ہے جس کے تحت ہم یہ حقیقت ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ خصوصی افراد بھی کسی محکمہ یا شعبہ میں اپنی صلاحتیں منوا سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا ریحانہ گل ہمارے لئے ایک بہت بڑی مثال ہیں جو بصارت سے محرومی کے باجود صحافت میں کام کرنا چاہتی ہیں لیکن وہ اس وجہ سے پچھے ہٹتی ہیں کہ ایک تو وہ بصارت سے محروم ہیں اور دوسری طرف ہمارے حکومتی ادارے انہیں یہ سہولیات نہیں دے سکتے کہ ان کو آنے جانے میں کوئی تکلیف نہ ہو۔
ڈاکٹر عرفان اشرف نے بتایا کہ اس معاشرے میں ایک جیتے جاگتے انسان کو بھی بپلک ٹرانسپورٹ میں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو معذور افراد کو اس سے کئی گناہ زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اگر ایک نارمل صحافی اس طرح کے حالات میں صحافت نہیں کر سکتا تو ایک معذور شخص یا خاتون کیسے اپنی ذمہ داریاں پوری کر سکتی ہیں؟ مطلب یہ کہ صحافت میں ان کی کوئی ترجمانی ہی نہیں رہی۔
عرفان اشرف کے مطابق اگر خصوصی افراد صحافت میں نہیں آتے تو اس سے ایک پورا طبقہ متاثر ہوتا ہے کیونکہ جیسے ریحانہ گل ریڈیو میں معذور افراد کے لئے پروگرام کرتی تھیں تو وہ بصارت سے محروم لوگوں کی ایک نمائندہ تھیں اب جب کہ وہ اپنی فرائض سر انجام نہیں دے سکتیں تو اس کی وجہ سے پورا ایک طبقہ اپنی نمائندگی سے محروم ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام سرکاری ادارے میں خصوصی افراد کو نہ صرف نمائندگی فراہم کرے بلکہ انہیں بنیادی سہولیات بھی دے تاکہ انہیں اپنے کام کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نا کرنا پڑے، ”کم از کم جو معذوری کو اپنی کمزوری نہیں سمجھتیں اور بطور ریڈیو آر جے اپنے فرائض سرانجام دیتی تھیں لیکن حکومت کی جانب سے انہیں وہ سہولیات نہیں ملیں جن کی بدولت وہ اپنی صلاحتیوں کو برقرار رکھتیں۔”
عالمی یوم ریڈیو پہلی بار کب منایا گیا؟
اقوام متحدہ کی تنظیم یونیسکو کے مطابق 13 فروری کو ریڈیو کا دن منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے یونیسکو کے ممبر ممالک نے 2011 میں ریڈیو کا عالمی دن منانے کی قرارداد پیش کی تھی جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2012 میں بین الااقوامی دن کے طور پر اپنایا اور اس طرح 13 فروری عالمی یوم ریڈیو بن گیا۔ ریڈیو مختلف النوع معلومات فراہم کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ اور عالمی سطح پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والا وسیلہ ہے۔ وسیع تر سامعین تک پہنچنے کی اس انوکھی صلاحیت کا مطلب ہے کہ ریڈیو معاشرے کے تنوع میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔