لائف سٹائل

پہلے یاسمہ نور اور اب گل پانڑہ، ان کی شادیوں سے لوگ چاہتے کیا ہیں؟

 

ناہید جہانگیر

‘پشتو کے معروف گلوکار شاہسوار اور یاسمہ نور رشتہ ازدواج میں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوگئے’ پشاور شہر کی یاسمہ نور جو پشتو زبان کی گلوکارہ ہیں کہتی ہیں کہ افواہیں دل دکھاتی ہے وہ خود جھوٹی خبر کا شکار ہوئی افواہوں سے رشتوں کو نقصان پہنچتا ہے سچ ثابت کرتے کرتے کافی دیر ہوجاتی ہے۔

یاسمہ نور نے بتایا کہ وہ دن نہیں بھول سکتی جب میڈیا پر یہ خبر وائرل ہوگئی تھی کہ یاسمہ نور اور شاہسوار کی شادی ہوگئی ہے اور دونوں نے ہمیشہ کے لیے شوبز چھوڑ دیا ہے۔

اس قسم کی غلط افواہ سے نا صرف اپنی ذات کو ٹھیس پہنچتی ہے بلکہ لوگوں کا سامنا کرنا مشکل ہوجاتا ہے، لوگوں کی طرح طرح سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ شوبز سے وابستہ لوگوں میں عام عوام زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں جو بھی جھوٹی خبر ہو جنگل میں آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ یاسمہ نور نے لوگوں سے درخواست کی ہے کہ خبر کی تصدیق کرنے کے بعد نشر یا شیئر کریں۔ پھیلانے والوں کے لیے مذاق جبکہ متاثرہ بندے کے باعث تکلیف ہوتی ہے۔

دوسری جانب اس حوالے سے گلوکار راشد احمد خان نے کہا کہ نہ صرف خیبرپختونخوا میں بلکہ یہ پاکستان سمیت پوری دنیا کے گلوکار ، ڈرامہ اور فلم سے وابستہ لوگ غلط افواہوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں ایک تو پرانے آرٹسٹ جو کافی عرصہ تک میڈیا سے دور ہوتے ہیں  تو ان کے اپنے ہی فین مشہور کردیتے ہیں کہ وہ یا تو مرگیا یا شادی وغیرہ ہوگئی ان غلط افواہوں سے وہی فنکار یا گلوکار خود لوگوں کے سامنے آکر تردید کرتا ہے۔

بعض لوگ قصداً اسی طرح کرتے ہیں گل پانڑہ جو ایک مشہور گلوکارہ ہے آج کل انکی شادی کے بارے میں افواہ ہے کہ انکی شادی ہوگئی ہے حالانکہ اسکے بارے میں خود گل پانڑہ کا ردعمل سامنے نہیں آیا کوئی کہتا ہے کہ جھوٹ ہے کوئی کہتا ہے سچ ہے۔

خیبرپختونخوا کے ایف آئی اے ذرائع کے مطابق 2020 اور 21 میں تقریبا 10 سے 12 کمپلینٹ رجسٹرڈ ہوئے اور شکایت درج کرنے والوں میں مشہور پشتو گلوکارہ مرینہ نعیم  اورٹک ٹاکر حریم شاہ اور صندل خٹک بھی شامل ہیں۔

ایف آئی اے زرائع کے مطابق شوبز سے  وابستہ لوگ اپنی شکایات درج کرتے ہیں اور مکمل تفتیش کے بعد مجرم بھی پکڑا جاتا ہے لیکن جہاں تک سزا دینے کی بات ہے وہ ابھی تک کسی کو ملی نہیں ہے اور اسکی اہم وجہ آپس میں صلح ہے۔

صلح اس لئے کرتے ہیں کہ مکمل تفیتش کے بعد اکثر کیسز میں دونوں طرف کی پارٹی ملوث پائی جاتی ہے جس بندے نے شکایت درج کی ہوتی ہے بات میڈیا پر آنے سے اور بدنامی ہوجانے سے پیچھے ہٹ جاتا ہے اور آپس میں صلح کرنے پر رضا مندی اختیار کی جاتی ہے۔

دونوں طرف پارٹی ملوث ہونے سے کیا مراد ہے اس سوال کے جواب میں ایف آئی اے کے اہلکار نے بتایا کہ مختلف نوعیت کی شکایات درج کی جاتی ہیں ان میں یوٹیوب یا فیس بک اکاونٹ ہیک کرنا یا پروفیشنل جیلسی کی وجہ سے کسی کو بدنام کرنا، دوستی کے لئے مجبور کرنا یا دوستی کے بعد تعلقات خراب ہوجانے کے بعد کسی کو بلیک میل کرنا شامل ہے۔

جب شکایت درج کرنے اور تفتیش مکمل کرنے کے بعد اصل بات سامنے آتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ پہلے دوستی تھی اب بریک اپ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے متاثرہ بندے کی ویڈیو یا کوئی تصویر لیک کرنے پر دھمکایا جاتا ہے۔

مرد آرٹسٹ بھی شکایات درج کرتے ہیں مشہور گلوکار ہونے کی وجہ سے فین وغیرہ سے دوستی کرکے بعد میں ہراس ہوتے ہیں۔ جہاں تک غلط اور بے بنیاد خبر سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کی بات ہے تو یہ ایک جرم ہے سزا اور جرمانہ یا دونوں ہوسکتے ہیں۔

خیبرپختونخوا صوابی سے تعلق رکھنے والے راشد احمد خان جو پشاور نیورسٹی سے میوزک میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں نے مزید بتایا کہ ابھی تک خیبرپختونخوا میں گلوکاروں کی تعداد معلوم نہیں ہے لیکن انکی تنظیم میں پشاور،مردان،بنوں،مردان،چارسدہ،سوات،مالاکنڈ،نوشہرہ سے تقریباً 16 سو تک گلوکار رجسٹرڈ ہیں۔

غلط اور جھوٹی خبر سے ایک اور متاثرہ فنکارہ مینا شمس جو پشاور ٹیلی وژن اور اے وی ٹی خیبر کے ساتھ پچھلے 17 سالوں سے منسلک ہیں اور ان سالوں میں انہوں  نے مختلف ہندکو، پشتو ڈراموں اور پروگراموں میں اپنی صلاحیت کے جوھر دکھائے کا کہنا ہے کہ ریٹس بڑھانے کے لیے مختلف میڈیا پلیٹ فارمز سے آرٹسٹ کے بارے غلط اور بے بنیاد افواہیں اور خبر چلائی جاتی ہے کہ فلاں کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ،یا شادی ،طلاق ہوگئی بغیر سوچے سمجھے کہ اس طرح کی خبر سے کسی پر کیا بیتے گی یا کتنے برے طریقے سے انکی ذاتی زندگی متاثر ہوگی۔

مینا شمس نے کہا کہ انکی ذاتی زندگی کے بارے میں بھی سوشل میڈیا پر اکثر یہی کہا جاتا ہے کہ مینا شمس کی فلاں کے ساتھ شادی ہوگئی ہے اور مینا کے تو اتنے اتنے بچے بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جن بچوں کو انکے بچے کہا جاتا ہے وہ انکے بھانجے بھتیجے ہیں اللہ کو جب منظور ہوگا اور انکی قسمت میں شادی ہوگی سب کے سامنے ہوگی وہ کیوں اپنے فین سے چپکے شادی کریں گی لیکن غلط خبر چلانے اور پھیلانے سے نا صرف انکو کافی دکھ ہوتا ہے بلکہ ایک آرٹسٹ کا بھی خاندان ہوتا ہے انکی افواہ سے وہ بھی کافی پریشان ہوتے ہیں۔انکی بھی دل آزاری ہوتی ہے، یہ سنسنی خیز خبر بہت ہی کم وقت کے لیے ہوتا ہے لیکن ایک ادارے کو ہمیشہ کے لیے بے اعتبار کر جاتا ہے۔

غلط اور بے بنیاد خبر وائرل کرنے کے خلاف شکایت درج کرنے کے حوالے سے مینا شمس نے کہا کہ جس بندے نے سوشل میڈیا پر یہ خبر پھیلائی تھی وہ ملک سے باہر ہے جیسے ہی پاکستان آئے گا وہ ضرور شکایت درج کریں گی۔

اس حوالے سے ایف آئی اے کے اہلکار نے بتایا کہ مجرم ملک کے اندر ہو یا باہر ہو شکایت درج کی جاسکتی ہے کیونکہ انکوائری سے پہلے کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا جا سکتا ثبوت و شواہد مکمل ہونے میں وقت لگتا ہے ثبوت سامنے آنے پر اگر مجرم ملک سے باہر بھی ہوتو جیسے ہی ملک میں داخل ہوتا ہے ایئرپورٹ پر ہی گرفتار کیا جاتا ہے۔

خیبرپختونخوا پشاور کے ایڈوکیٹ طارق افغان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بالکل اس طرح کے افواہوں کے لیے جن سے کسی عزت مجروح ہوتی ہو قانون موجود ہے۔

پاکستان کے قانون پینل کورٹ  499 اور 500دفعات کے تحت کسی کے خلاف غلط افواہ پھیلانے کے جرم کی وضاحت کرتی ہے،کسی کے خلاف غلط ریمارکس دینا ،افواہ پھیلانا یا نشر کرنا قانونی جرم ہے۔ متاثرہ شخص اگر کورٹ میں اپیل کریں اور جھوٹی خبر پھیلانے کے خلاف کیس دائر کریں الزام ثابت ہونے کے بعد سزا اور جرمانانہ لگایا جاتا ہے۔ طارق افغان کے مطابق کسی کی عزت کو کتنا نقصان پہنچا اس حساب سے  سزا اور جرمانہ  لگایا جاتا ہے۔

2002 آر ڈیننس سیکشن 3 اور 4 کے تحت ایسی خبر دینا  یا تصویر  کو شئیر کرنا جس سے کسی کی بے عزتی ہوتی ہو تو متاثرہ بندہ کیس کرسکتا ہے اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں عدالت سزا دیتا ہے۔

طارق افغان کے مطابق پاکستان میں ایک اچھا قانون موجود ہے لیکن لوگ کیس دائر  نہیں کرتے اسکی بھی وجوہات ہیں ایک زیادہ تر لوگوں کو علم نہیں اور جن کو علم ہے تو قانونی کاروائی تھوڑا مشکل ہونے کی وجہ سے لوگ عدالت رجوع کرنے  کی بجائے جرگہ کرتے ہیں یا خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ اگر متاثرین عدالت سے رجوع کریں اور دو تین لوگوں کو سخت سزا ملے تو اس طرح کی شکایات کم ہوجائے گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button