پشاور میں روزانہ کم از کم 10 لاکھ لیٹر پانی گاڑیاں دھونے پر استعمال ہوتا ہے
خالدہ نیاز
پشاور میں روزانہ کی بنیاد پر 10 لاکھ لیٹر پانی گاڑیوں کے دھونے پر استعمال ہوتا ہے۔ مختلف ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پشاور میں اس وقت 500 تک کار واش سنٹرز موجود ہیں اور ہر کار واش سنٹر میں روزانہ 20 سے 22 تک گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں دھوئی جاتی ہیں۔
پاکستان میں واٹر اینڈ کلائمیٹ چینج پر کام کرنے والے کلائمیٹ چینج ایکسپرٹ آصف کے مطابق پاکستان میں 100 سے 200 لیٹر تک ایک کار پر پانی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ امریکہ اور باقی ترقی یافتہ ممالک میں ایک کار پر صرف 30 سے 40 لیٹر تک پانی استعمال کیا جاتا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں ڈاکٹر آصف کا کہنا تھا کہ پشاور میں کار واش سنٹرز واقعی پانی کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، ”ایسا نہیں ہے کہ وہ کوئی غلط کام کرتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کرتے۔”
کیمبرج یونیورسٹی لندن سے پی ایچ ڈی کرنے والے آصف نے بتایا کہ پشاور میں موجود کارواش سنٹرز میں جو پریشر ایکوپمنٹ ہیں وہ آپ ٹو ڈیٹ نہیں پرانے ہیں، اس وجہ سے پشاور اور پورے پختونخوا میں پانی کی سطح بھی نیچے جا رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں، ”آج کل کے زمانے میں پانی بچانے یا اس کا استعمال کرنے کیلئے جدید آلات اور طریقہ کار آیا ہے جس سے دو سے تین لیٹر پانی میں گاڑی صاف ہو سکتی ہے، کار واش سنٹرز میں ری سائیکلنگ کے زریعے 90 سے 95 فیصد پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے لیکن یہاں کہیں بھی ری سائیکلنگ کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے، ”اس کے علاوہ پانی فری ریسورس نہیں ہے، پانی کے گھریلو اور کمرشل استعمال کی الگ الگ قیمت ہونی چاہیے جس سے یہ ہو گا کہ کار واش سنٹرز والے بھی پانی کا استعمال کم کریں گے، اس کے علاوہ واٹر ری سائیکلنگ پلانٹ کو حکومت سبسڈی دے یا ان کی حوصلہ افزائی کرے تو یہ بہتر ہو گا اور اس کے ساتھ پانی کا استعمال کم ہو جائے گا۔”
ہمارے پاس پانی کو دوبارہ استعمال میں لانے کا کوئی بندوبست نہیں
‘ہم روزانہ کی بنیاد پر 22 تک گاڑیاں اور موٹرسائیکلوں کو دھوتے ہیں اور اس کو ہم صاف پانی سے دھوتے ہیں جبکہ وہ پانی بہتا ہے اور اس کو ری سائیکل کرنے کا کوئی بندوبست نہیں ہے ہمارے پاس۔’ انعام اللہ نے بتایا۔
انعام اللہ پشاور کے علاقے بشیر آباد میں واقع ایک کار واش سنٹر میں منیجر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ انعام اللہ نے بتایا کہ ان کے ساتھ واش سنٹر میں 6 افراد برسر روزگار ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ سنٹر 12 سالوں سے قائم ہے جبکہ پشاور میں ایک ہزار سے زائد کار واش سنٹرز موجود ہیں جہاں ہزاروں افراد کام کر رہے ہیں۔
انعام اللہ کے مطابق ان کا کار واش سنٹر ڈبلیو ایس ایس پی کے ساتھ باقاعدہ رجسٹرڈ ہے اور ہر دو مہینے بعد وہ ان کو 11 ہزار روپے بھی دیتے ہیں۔
پانی کی قلت: پاکستان تیسرے نمبر پر
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ایک رپورٹ کے مطابق پانی کی سنگین قلت کے شکار ممالک کی فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی اور آبی ذخائر کے لیے پاکستانی کونسل برائے تحقیق (پی سی آر ڈبلیو آر) نے خبردار کیا ہے کہ سن دو ہزار پچیس تک یہ جنوب ایشیائی ملک پانی کے شدید بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔
حسار فاؤنڈیشن پانی کو بچانے کے لیے کیا کر رہی ہے؟
حسار فاؤنڈیشن کی جنرل منیجر ثنا بکسا موسی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ان کا ادارہ پانی کو محفوظ کرنے اور بچانے پہ کام کر رہا ہے اور یہ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ کون سے ایسے طریقے ہیں جس کی مدد سے پانی کو بچایا جا سکتا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا کہ وہ اس مد میں بھی لوگوں میں آگاہی پھیلا رہے ہیں کہ پائپ سے گاڑیوں وغیرہ کو نہ دھویا جائے بلکہ بالٹی سے اور کپڑے سے اگر گاڑیوں کو دھویا جائے تو اس سے کافی زیادہ پانی کو بچایا جا سکتا ہے۔
ثنا بکسا موسی مزید کہتی ہیں کہ کار واش سنٹرز میں ری سائیکلنگ اور گرے واٹر کی جانب جانا چاہیے کیونکہ ایسے طریقے سے پانی کو بچایا جا سکتا ہے جبکہ اس کے علاوہ ان سنٹرز کو یہ بھی چاہیے کہ وہ جس صاف پانی سے گاڑیوں کو دھوتے ہیں تو اس کو بہنے نہ دیں بلکہ اس پانی کو سٹور کرنے کے کا کوئی بندوبست کریں اور پھر اس پانی کو ٹریٹمنٹ کے ذریعے دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جائے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 3 کروڑ افراد صاف پانی تک رسائی سے محروم ہیں اور یہاں فی شخص سالانہ پانی کی دستیابی (1 ہزار کیوبک) میٹر سے بھی کم ہے۔ اگر یہ فی شخص سالانہ 500 کیوبک میڑ تک پہنچ جاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ 2025 تک پانی کی قطعی کمی واقع ہو جائے۔
واضح رہے کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ 2017 میں یہاں آبادی 18 کروڑ تھی جو اب 22 کروڑ تک پہنچ چکی ہے، اس لحاظ سے 2025 تک پاکستان کی پانی کی طلب 274 ملین ایکڑ فٹ جبکہ پانی کی فراہمی 191 ملین ایکڑ فٹ تک ہو سکتی ہے۔
پانی کی کمی نہیں ہے لیکن غلط استعمال زیادہ ہے
ماؤئنٹین اینڈ گلیشیئر پروٹیکشن آرگنائزیشن کی بانی اور سول سوسائٹی کولیشن فار کلائمیٹ چینج کی چیف ایگزیکٹیو عائشہ خان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں موجودہ وقت میں پانی کی اتنی کمی نہیں ہے لیکن اس کا غلط استعمال جاری ہے جس کی وجہ سے ہم پانی کی کمی سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
کار واش سنٹرز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان سنٹرز میں پانی کا بہت زیادہ استعمال ہو رہا ہے اور وہ بھی صاف پانی کا حالانکہ یہ سنٹرز پانی کو ری سائیکلنگ کے ذریعے کافی حد تک بچا سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے نہ صرف کار واش سنٹرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا بلکہ حکومت کو بھی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک پالیسی نہیں ہو گی تب تک لوگ بھی سیریس نہیں لیتے۔
عائشہ خان نے مزید کہا کہ پانی کی کمی میں آبادی کا بھی بڑا ہاتھ ہے کیونکہ ہمیں پہلے جتنا پانی ہی مل رہا ہے لیکن آبادی بہت بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے پانی کی طلب زیادہ ہو گئی ہے اور ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے جبکہ پانی اتنا نہیں ہے، ”کلائمیٹ چینج کی وجہ سے بھی پانی میں کمی واقع ہو رہی ہے کیونکہ ہم پانی استعمال تو کر رہے ہیں لیکن اس کی اس طرح حفاظت نہیں کر پا رہے جس طرح کرنی چاہیے جبکہ پانی کی کوالٹی بھی ویسی نہیں رہی جس طرح پہلے تھی۔”
عائشہ خان نے مزید کہا کہ ہر جگہ لوگوں نے ٹیوب ویلز وغیرہ کھودے ہیں اور ہرجگہ سے پانی نکالا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پانی کی سطح نیچے چلی گئی ہے، اب اگر ہم 3 یا 4 سو فٹ تک نیچے نہیں جاتے تو ہمیں صاف پانی نہیں ملتا۔
سمال ڈیمز بنانا وقت کی ضرورت کیوں ہے؟
عائشہ خان نے یہ بھی بتایا کہ پانی کو ذخیرہ کرنے کی اشد ضرورت ہے اس کے لیے سمال ڈیمز بنانے چاہئیں جہاں پانی کو سٹور کیا جا سکے، اس کے علاوہ ایکوافر کو ری چارج کرنے کی ضرورت ہے اور ہر جگہ چاہے وہ گھر ہو، دفاتر ہوں یا باقی جگہیں، ہر جگہ پانی کو بچانا چاہیے اور ایسے طریقے اپنانے چاہئیں جن کے ذریعے ہم پانی کو دوبارہ استعمال کے قابل بنا سکیں۔
عائشہ خان نے بتایا کہ بلوچستان کا حال سب کے سامنے ہے جہاں پانی کی قلت ہے تو اگر ہم نے بھی پانی کا استعمال صحیح طریقے سے نہیں کیا اور یوں ہی اس کو ضائع کرتے رہے تو یہاں بھی پانی کی کمی کا مسئلہ سامنے آ سکتا ہے کیونکہ پانی کے بغیر زندگی ناممکن ہے۔
دوسری جانب ڈبلیو ایس ایس پی کے میڈیا اینڈ کمیونیکیشن آفیسر میاں فواد علی شاہ نے بتایا کہ پشاور کی 43 کونسلوں میں ان کے ادارے کے پاس 168 کار واش سنٹرز ہیں جو سارے رجسٹرڈ ہیں اور وہاں واٹر میٹرز بھی لگائے گئے ہیں، ”کار واش سنٹرز کے عملے کو آگاہی بھی دی جا رہی ہے سٹیزن لائزون سیل ٹیمز کے ذریعے، ان کو سیشنز دیئے جا چکے ہیں کہ وہ کس طرح پانی کا استعمال کریں اور کس طرح پانی کو بچا سکتے ہیں۔”
پشاور میں پانی بچاؤ مہم
انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ پی ڈی اے اور کنٹونمنٹ کے علاقوں میں بھی کار واش سنٹرز موجود ہیں لیکن وہ ان کے ساتھ نہیں آتے۔ فواد کے مطابق ان کے ادارے نے شہری علاقوں میں بھی ایک مہم شروع کی ہے جس میں لوگوں کو پانی کی اہمیت اور پانی کے بچاؤ کے حوالے سے آگاہی دی جا رہی ہے کہ کس طرح وہ پانی کو آنے والی نسلوں کے لیے بچا سکتے ہیں۔
آصف کے نزدیک جہاں تک کلائمیٹ چینج کی بات ہے کہ اس کا پانی پر اثر ہو گا یا نہیں، اس پر کافی کام ہوا ہے، بین الاقوامی سطح پر ریسرچ ہوئی ہے، مستقبل میں 30، 40 سال میں برف تودے پگھلنے سے پانی میں اضافہ ہو گا لیکن یہ مستقل اور لانگ ٹرم میں نہیں ہو گا، لانگ ٹرم پلان کے مطابق پانی میں کمی آئے گی، ”اس کے علاوہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے بارش ویسی پرانی نہیں رہی، اب بارش تیز ہوتی ہے، سیلاب آتے ہیں لیکن پانی نیچے سٹور نہیں ہوتا، پہلے ایسا ہوتا تھا کہ کئی کئی دنوں تک بارش ہوتی تھی اور تیز نہیں ہوتی تھی ہلکی ہوتی تھی مگر اب ایک تو بارشیں کم ہوتی ہیں اور پھرہوتی بھی تیز ہیں۔
اگر ہم دیکھیں ایک طرف گرمی میں تو دوسری طرف پانی کے استعمال میں اضافہ ہوا، کار واش سنٹرز کے علاوہ باقی کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے۔”
ڈاکٹر آصف نے خبردار کیا کہ پانی کے استعمال میں اگراحتیاط نہ برتی گئی اور اس کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو مستقبل میں مشکل ہو جائے گی، اگر ہم نے آج اقدامات اٹھائے تو اس پر قابو پایا جا سکتا ہے، اس حوالے سے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔