باجوڑ لیویز فورس شہداء کے ورثاء اپنے جائز حقوق سے آج بھی محروم
زاہد جان
30 جنوری 2010 کو لیویز فورس کے اہلکار عقیل خان ضلع باجوڑ کے صدر مقام خار میں ایک خودکش دھماکے میں شہید کئے گئے تھے۔ ان کے علاوہ ان کے دیگر ساتھی اور عام لوگ بھی اس بم دھماکہ میں شہید ہو گئے تھے۔
شہید عقیل کے خاندان کیلئے یہ غم ایک بہت بڑا صدمہ تھا کیونکہ عقیل اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا اور ان کے بچوں اور بیوی کا رزق حلال ان کی تنخواہ کے ساتھ جڑا ہوا تھا تاہم جیسے ہی وہ شہید ہوئے تو اُن کی فیملی کے برے دن شروع ہو گئے اور اۤج بھی شہید کا خاندان مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔
”برے حالات یہ تھے کہ میں نے والد کی وفات کے بعد بازار میں محنت مزدوری کی، ٹرالی چلائی اور ساتھ ساتھ ڈیلی ویجز (یومیہ اجرت) پر بھی مزدوری کی۔ اس کے علاوہ میرے پاس اپنے بہن بھائیوں کی سکول فیس نہ ہونے کی وجہ سے اُن کو میں نے پرائیویٹ سکولوں سے نکال کر سرکاری سکولوں میں داخل کروایا۔ اس کے علاوہ کریانہ دکانوں سے روزمرہ اشیاء کی چیزیں ادھار لینا پڑتی ہیں جس کو بڑے مشکل سے میں ادا کرتا ہوں۔” شہید اہلکار کے بیٹے اقبال حسین نے بتایا۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اُس وقت سے لے کر اۤج تک میں اپنے شہید والد کے حقوق کی جنگ لڑ رہا ہوں اور اۤج بھی مجھ جیسے 40 شہداء کے ورثاء اپنے جائز حق شہداء پیکج سے محروم ہیں، ”فاٹا انضمام کے وقت لیویز فورس کو پولیس فورم میں ضم کرنے اور ان کو پولیس اور دیگر فورسز کے برابر مراعات اور حقوق دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، بدقسمتی سے فاٹا انضمام کے بعد پچھلے تین سالوں سے ہمارے ساتھ بار بار وعدے کئے جاتے ہیں کہ اۤپ کو دیگر فورسز کے برابر مراعات اور حقوق دیئے جائیں گے لیکن یہ وعدے اور دعوے صرف اس وقت تک کئے جاتے ہیں جب یا شہداء کا دن منایا جاتا ہے اور یا جب ہم اپنے حقوق کیلئے احتجاجی دھرنے دیتے ہیں۔
اقبال حسین کا کہنا تھا کہ اۤج بھی میں ڈسٹرکٹ پولیس اۤفس باجوڑ اۤیا تھا تاکہ مجھے بی ایس داخلہ کیلئے دس ہزار امداد دی جا سکے کیونکہ 10 ہزار روپے دینا میرے بس کی بات نہیں ہے لیکن اۤج بھی حسب روایت ڈی پی او صاحب نے مجھے درخواست لکھنے کو کہا، ”میں ہر بار درخواست لکھتا ہوں لیکن بعد میں کوئی رزلٹ نہیں ملتا، والد کی شہادت کے بعد کھبی ہوٹل میں اور کھبی بازار میں محنت مزدوری کر کے اۤج تک اپنے خاندان کا پیٹ پال رہا ہوں لیکن اس کے برعکس حکومت کا تعاون نہ ہونے کے برابر ہے، اگر میرے والد کی تنخواہ پولیس رولز کے مطابق مجھے ملتی اور مجھے ان کی جگہ بھرتی کیا جاتا تو میں کھبی بھیک مانگنے اور محنت مزدوری پر مجبور نہ ہوتا۔”
ضلع باجوڑ میں لیویز فورس کے پولیس فورس میں انضمام کے بعد شہداء کے ورثاء کو ان کا جائز حق نہیں دیا جا رہا، حکومتی قوانین کے مطابق شہید اہلکار کی جگہ ان کے بیٹے یا کسی اور رشتہ دار کو بھرتی کیا جائے گا لیکن ضلع باجوڑ میں لیویز فورس شہداء کے ورثاء کے ساتھ ایسا نہیں ہو رہا ہے بلکہ کئی بار شہداء کے بچوں کو احتجاج بھی کرنا پڑا، حکومت اور محکمہ پولیس کی جانب سے بار بار وعدوں کے باوجود بھی ان کے ورثاء کو بھرتی نہیں کیا گیا۔
اۤر ٹی اۤئی ایکٹ کے تحت حاصل کی گئی معلومات کے مطابق ضلع باجوڑ میں اب تک دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 72 لیویز اہلکار شہید ہوئے ہیں جن میں 32 شہداء کے ورثاء کو بھرتی کیا گیا، 40 اہلکاروں کے بچے ابھی تک بھرتی نہیں کئے گئے جبکہ فاٹا انضمام کے بعد 241 نئے پولیس کانسٹیبل بھرتی کئے گئے ہیں۔
اس حوالے سے ڈسٹرکٹ پولیس اۤفیسر باجوڑ عبدالصمد خان کے ساتھ رابطہ کیا گیا تو اُنہوں نے بتایا کہ ہم نے پولیس ڈپارٹمنٹ میں تمام ضم شدہ اضلاع کے لئے 300 نئی بھرتیوں کا مراسلہ اۤئی جی پولیس اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کو بھیج دیا ہے اور ان 300 اۤسامیاں پر صرف شہداء کے بچے بھرتی کئے جائیں گے اور یہ رواں سال فروری کے اۤخر تک ممکن ہے، ”باجوڑ میں اس وقت 40 شہداء کے ورثاء بھرتیوں سے محروم ہیں جس کیلئے میں نے سپیشل کیس بنا کر اۤئی جی اور دیگر متعلقہ اداروں کو ارسال کر دیا ہے، امید ہے کہ بہت جلد ان پر شہداء کے بچے بھرتی کئے جائیں گے اور ان میں جو بچے پولیس رولز کے مطابق بھرتی کیلئے اہل نہیں ہیں تو اُن کو کلاس فورس اور دیگر پوسٹوں پر نوکریاں دی جائیں گی۔”
ڈی پی او باجوڑ نے کہا کہ جب سے میں نے چارج سنبھالا ہے تو شہداء کے بچوں کیلئے سپیشل تعارفی کارڈ بنائے ہیں تاکہ اُن کو نہ صرف پولیس دفاتر بلکہ دیگر سرکاری دفاتر میں عزت ملے۔ ڈسٹرکٹ پولیس اۤفیسر باجوڑ کے مطابق سول کالونی خار میں اُس دور کے پولیٹیکل ایجنٹ عامر خٹک نے اۤسٹریلین زیتون کے پوداجات باجوڑ لیویز فورس شہداء کے نام پر لگائے تھے جس کا ایم او یو میں نے محکمہ زراعت کے ساتھ سائن کر دیا ہے، زیتون سے نکلنے والے تیل کے پیسے ان شہداء کے بچوں کو دیئےجائیں گے، ہماری کوشش ہے کہ باجوڑ لیویز فورس شہداء کے ساتھ زیادہ سے زیادہ امداد کی جائے۔
لیویز مرج کمیٹی کے ترجمان حوالدار حبیب اللہ کا کہنا ہے کہ سرتاج کمیٹی نے فاٹا ریفارمز کے وقت وعدہ کیا تھا اور یہ بات ریفارمز کمیٹی کی رپورٹ میں شامل کی گئی تھی کہ تمام ضم شدہ اضلاع میں 18 ہزار نئے پولیس اہلکار بھرتی کئے جائیں گے، ”چونکہ موجودہ حکومت نے تمام ضم شدہ اضلاع کے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا اور پہلے سے موجود 29 ہزار لیویز فورس اہلکاروں کو ایسے پیش کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ ہم نے نئے بھرتی کئے ہیں حالانکہ لیویز فورس کو صرف پولیس میں ضم کیا گیا ہے۔”
حبیب اللہ نے بتایا کہ فاٹا انضمام کے بعد ضلع باجوڑ میں پولیس کے 241 نئے اہلکاروں کو بھرتی کیا گیا، ”اس میں شہداء کے بچوں کو بھرتی کرنا چاہئے تھا مگر حکومت نے ٹال مٹول سے کام لے کر شہداء کے بچوں کو بھرتی نہیں کیا۔”