”ملازمت نا کروں تو کیا ادھار لوں، بھیک مانگوں یا ایم اے صحافت کرنے کے بعد دیہاڑی پر مزدوری کروں؟
نسرین جبین
صحافیوں کو ناصرف بیرونی بلکہ اندرونی سیکیورٹی خدشات کا بھی سامنا ہے، صحافیوں کی ایک بڑی تعدادحکومت کی طرف سے مقرر کردہ کم سے کم اجرت سے بھی کم اجرت لینے پر مجبور ہے۔ یہاں یہ بات بھی باعث تکلیف ہے کہ حکومت کی مقررہ کم سے کم اجرت ایک ناخواندہ مزدور کی ہے جبکہ پشاور میں ایم اے پاس صحافی بھی ایک ناخواندہ مزدور سے کم تنخواہ لے رہا ہے۔
”میں ایک بڑے قومی اخبار میں کام کرتی ہوں جس کا بڑا نام ہے لیکن میں اپنی تنخواہ کے بارے میں کسی کو بتاتے ہوئے اپنی انا اور وقار کی تذلیل محسوس کرتی ہوں کیونکہ میری تنخواہ ایک ناخواندہ مزدور کی کم سے کم اجرت سے بھی کم ہے میں اسی لیے اپنا نام بھی بتانے سے گریز کر رہی ہوں، میرے کام کے حوالے سے میرا ایک نام ہے، جس ادارے میں گزشتہ دو دہایئوں سے کام کر رہی ہوں وہ ایک بڑا ادارہ ہے اس لیے میرا نام مجھے ادارے کی وجہ سے ہی ملا لیکن ادارے نے تنخواہ میں گزشتہ سات سال سے اضافہ نہیں کیا، میں 20 سال سے کام کر رہی ہوں اور تنخواہ شرمناک حد تک کم ہے، میرا صحافتی شعبے میں بڑا نام ہے لیکن وہ میرے بچے کی فیس، بجلی کے اور دیگر یوٹیلٹی بلز ادا نہیں کر سکتا، میرے اور بچوں کا علاج اور ادویات میرے صحافتی کارڈ سے ادا نہیں ہو سکتے، ان سب کے لیے مجھے رقم چاہیے جو مجھے میری خدمات کے صلے میں میرا ادارہ مجھے دے اور میں خود کو محفوظ تصور کروں، جب ادارہ خود ہی اندرونی معاملات میں اپنے صحافی کارکنوں کو تحفظ نہیں دے گا تو باہر کے لوگ کیسے تحفظ دیں گے، پہلے سیفٹی اور سیکیورٹی، ہر طرح کی اندر سے ہوتی ہے چاہے وہ ادارہ ہو یا گھر۔”
”میں بہت بے بس اور مجبور ہوں، کچھ اور نہیں کر سکتا تھا میرے دو بچے ہیں، گھر ہے، بال بچوں کا خرچہ، علاج، خوراک، لباس، بلز اور سب کچھ دوسرے ہزاروں مردوں کی طرح میری ذمہ داری ہے، میں اگر مالکان کی تمام شرائط مان کر ملازمت نا کروں تو کیا ادھار لوں، بھیک مانگوں یا ایم اے صحافت کرنے کے بعد دیہاڑی پر مزدوری کروں؟”
یہ کہنا تھا پشاور کے صحافی امیر معاویہ کا، جنہوں نے بتایا کہ انہوں نے ایک قومی ادارے میں کچھ عرصہ کام کیا تو پھر ڈاؤن سائزنگ میں جاب ختم ہو گئی، ”میں بے روزگار پھرتا رہا اور مختلف اداروں میں درخواستیں دیں تو ایک مقامی ادارے سے آفر آ گئی، صرف 12000 روپے تنخواہ آفر ہوئی اور سوائے چپڑاسی اور جمعدار کے باقی سارے کام کرنے کو کہا گیا جس میں رپورٹنگ، کمپوزنگ، اشتہارات لانا، ایڈٹنگ اور دیگر سب کچھ کرنا تھا لیکن میرے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا سوائے مزدری کے یا پھر کسی سے ادھار مانگنے کےجو کہ بہرحال مجھے واپس بھی کرنا تھا، بس مرتا کیا نا کرتا میں نے حامی بھر لی اور اب اسی مقامی اخبار میں کام کر رہا ہوں، کسی کو نا تو تنخواہ بتاتا ہوں اور نا اپنی مجبوری کیونکہ ان دونوں سے خودداری و عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔”
معاویہ کی طرح پشاور میں درجنوں صحافی ایسے ہیں جو ایم اے کی ڈگری رکھتے ہوئے بھی ناخواندہ مزدور کی کم سے کم اجرت سے بھی کم تنخواہوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں ایسے میں بہترین صحافتی اقدار اور سیفٹی ایند سیکورٹی تو پس پشت چلی جاتی ہیں، جو صحافی سال ہا سال تک خدمات پیش کرنے کے باوجود اپنی جاب سیکیورٹی اور مناسب اجرت کے حصول کے لیے اپنے ہی اداروں کے سامنے بے بس ہیں وہ فیلڈ میں کس طرح سے سیفٹی اور سیکیورٹی کے اصولوں کے مطابق محفوظ رہ سکتے ہیں؟ اور دوسری طرف جو کہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں انسانوں کی عزت اور طاقت کا اندازہ اس کی مالی حیثیت سے لگایا جاتا ہے۔
پشاور پریس کلب کے اعدادو شمار کے مطابق پشاور میں 564 صحافی باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں جبکہ تقریباً 100 صحافی مختلف اداروں کے ساتھ صحافتی خدمات سر انجام دے رہے ہیں، جو صحافی باقاعدہ قومی اور مقامی اخبارات کے ملازم ہیں انہیں جب سالوں پہلے اپوائنمبٹ لیٹر اس وقت ملا جب ان کو ملازمت دی گئی جس کی ہر سال تجدید کروانا ہوتی ہے تاہم ان کے لیٹرز کی تجدید کروائی گئی نا ہی ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا جبکہ دوسری طرف ان کے لیے ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے کہ 274 صحافیوں کو ڈاؤن سائزنگ کے نام پر ملازمت سے فارغ کر دیا گیا اور جو خوش قسمت ٹھہرے اور گھر نہیں بھیجے گئے ان کی تنخواہوں میں پچاس فیصد کمی لائی گئی اور آدھی تنخواہوں پر کام کرنے کو کہا گیا کہ اگر اس پر تنخواہ پر کام نہیں کر سکتے تو گھر جا سکتے ہیں لیکن صحافی بے چارہ ملازمت چھوڑ کر گھر کیسے چلا جائے، اسے گھر چلانا ہے اور کوئی آپشن نہیں لہذا کم تنخواہ پر ہی وہی کام بلکہ اس سے بھی زیادہ کام کرنے پر درجنوں صحافی مجبور ہو گئے۔ کام زیادہ اس لیے کرنا پڑا کہ باقی ساتھیوں کو تو جاب سے نکال دیا گیا، ان کا کام بھی باقی رہ جانے والوں کو کرنا پڑ گیا، اب وہ صحافی جو ملازمت سے فارغ ہو جانے اور کٹ لگنے سے بچ گئے وہ بھی تو حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم اجرت سے بھی کم تنخواہ لے رہے ہیں اور سال ہا سال سے تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا سوائے دو قومی سظح کے ٹی وی چینلز کے 20 صحافیوں کے باقی سب صحافی تنخواہوں میں اضافے کے لیے سال ہا سال سے مالکان کے فیصلےکے منتظر ہیں۔
جن اداروں میں صحافی کام کر رہے ہیں، وہاں بھی 80 فیصد سے زائد ایسے ہیں جنہیں ملنے والے معاوضے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اکثر اداروں میں تنخواہیں بروقت نہیں، مہینہ گزرنے کے بعد تنخواہ کا نہ ہونا بھی عام سی بات ہے، صحافیوں کی حالت یہ ہے کہ تنخواہ اور وقت پر تنخواہ ایک نعمت ایک احسان سمجھ کر قبول کی جا رہی ہے۔ صحافی زندگی کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔ لیکن ایسے ہی دور میں آگے بڑھ کر روشنی کرنا، قیادت سنبھالنا، ساتھیوں کو اکٹھا کر کے بحران سے نکالنا کسی بھی صحافی ساتھی کی ذمہ داری ہے۔
پشاور میں مالی لحاظ سے تین کیٹگریز کے صحافی ہیں: 564 میں سے 100 صحافی ایسے ہیں کہ جو خوشحال ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کھاتے پیتے خاندان سے ہیں یا پھر کوئی اپنا دوسرا کاروبا کر رہے ہیں صحافت کے ساتھ ساتھ جبکہ دوسری کیٹگری 50 ایسے صحافیوں کی ہے جو بین الاقوامی ادروں کے ساتھ منسلک ہیں یا فیلوشپ کر رہے ہیں اور اسے آمدنی کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔
ایک کیٹگری ایسے صحافیوں کی بھی ہے جو یلو جرنزم (زرد/لفافہ صحافت) پر یقین رکھتے ہیں جبکہ سب سے بڑی تعداد ان صحافیوں کی ہے جو کہ مالی لحاظ سے انتہائی کسم پرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
سینئر صحافی اور خیبر یونین آف جرنلسٹس کے صدر ناصر حسین کا کہنا ہے کہ صحافیوں کی سیفٹی اور سیکیورٹی کے لیے کی جانے والی کوششوں میں ان کے معاشی استحکام، جاب سیکیورٹی، مناسب اجرت، سہولیات کی فراہمی، باقاعدہ صحافتی ادارے کی طرف سے جاری کردہ اپوائنمنٹ لیٹرز کی فراہمی بھی ممکن بنائی جائے تاکہ نا صرف بیرونی بلکہ اندرونی سیفٹی اینڈ سیکیورٹی کے خدشات بھی کم ہو سکیں۔