لائف سٹائل

باجوڑ کے 52 پولیس اہلکار خیبر پختونخوا کے ریٹائرڈ بیوروکریٹس کی گھریلو ملازمت پر مجبور

زاہد جان

فاٹا انضمام سے پہلے جب پورا علاقہ ایک پولیٹیکل ایجنٹ کی زیرنگرانی ہوا کرتا تھا اس وقت لیویز فورس کے اہلکار فاٹا سیکرٹریٹ اور دیگر بیوروکریٹ کو ان کی ذاتی سکیورٹی اور گھریلو ملازمت کیلئے دیئے جاتے تھے، لیکن فاٹا انضمام کے بعد بھی یہ اہلکار ان افسران کے ساتھ ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے ہیں۔

دوسرے جب بھی کسی پولیٹیکل ایجنٹ یا اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کا تبادلہ ہوتا تو وہ دو تین لیویز اہلکاروں کو اپنے ساتھ لے جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ایسے اہلکار بھی موجود ہیں جن کی جگہ دوسرے لوگ ڈیوٹیاں کرتے ہیں۔ نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر لیویز کے ایک اہلکار جو اس وقت باجوڑ پولیس میں بطور محرر ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ اس وقت ریٹائرڈ بیوروکریٹ کے ساتھ 52 پولیس اہلکار ڈیوٹیوں پر مامور ہیں جو یا تو ان بیوروکریٹس کے گھروں میں چوکیدار اور یا باورچی خانوں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں باوجود اس کے کہ یہ اہلکار باقاعدہ ٹریننگ کر چکے ہیں اور ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے ملک اور قوم کا تحفظ کر سکیں۔

ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کے ساتھ ڈیوٹی پر مامور باجوڑ پولیس کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب پورے ملک میں اور خاص کر سوات سمیت باجوڑ میں دہشت گردانہ کارروائیاں عروج پر تھیں اور پولیس اہلکاروں سمیت لیویز اہلکار اپنی جان بچانے کی خاطر نوکریاں چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو اس وقت مجھ سمیت زیادہ تر اہلکار اس پر خوش اور امن محسوس کرتے تھے کہ باوردی اپنے علاقے میں ڈیوٹی سے بہتر ہے کہ ہم کسی بیوروکریٹ کے گھر میں ہی نوکری کریں۔

اس وقت باجوڑ پولیس فورس میں صحیح ڈیوٹی انجام دینے والوں کی تعداد بہت کم ہے اور ہمیشہ اہلکاروں کی کمی کی وجہ سے سکیورٹی مسائل درپیش ہوتے ہیں اور امن و امان کو کنٹرول کرنا دیگر اہلکاروں کیلئے مشکل ہوتا جا رہا ہے اس لیے بدامنی میں بھی اضافہ ہوا ہے اور آئے روز قبائلی اور سیاسی مشران کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ ضلع باجوڑ میں پولیس فورس کی کل تعداد 2400 ہے لیکن ڈیوٹی بہت کم اہلکار دیتے ہیں اور اکثر اہلکار غائب ہو جاتے ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام کے امیر اور سابقہ سینیٹر مولانا عبد الرشید کا کہنا ہے کہ اب تک 15 علمائے کرام کو ٹارگٹ کلنگ میں شہید کیا جا چکا ہے جن میں سے ایک ہمارے سابقہ صوبائی امیر مولانا مفتی سلطان محمد بھی ہیں جنہیں اکتوبر 2020 میں شہید فائرنگ کر کے شہید کیا گیا، اس کے کچھ عرصے بعد ہمارے انصار الاسلام کے صوبائی سالار مولانا عبد السلام کو ٹارگٹ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور حال ہی میں موجودہ بلدیاتی انتخابات میں یو سی بدان ماموند سے ہمارے امیدوار قاری محمد الیاس کو ہیڈکوراٹر خار میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا، اسی طرح دیگر سیکورٹی فورسز، باجوڑ پولیس، قومی مشران، سکول اساتذہ سمیت ہر طبقہ فکر کے افراد کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق سال 2021 میں 302 کی 54 واردتیں ہوئیں۔ باجوڑ میں پولیس نفری کی کمی کے باعث علاقے میں بدامنی کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

ڈی پی او باجوڑ کے مطابق 52 کے قریب پولیس اہلکار ایف سی آر دور سے اب تک ریٹائرڈ اور حاضر سروس بیوروکریٹس کے ساتھ ڈیوٹیوں پر موجود ہیں تو دوسری جانب باجوڑ پولیس کے صوبیدار میجرز، صوبیدار اور اسی طرح محرران کے پاس مراعات کے نام پر پولیس اہلکار موجود ہیں مگر ڈیوٹی کرنے کے لیے دستیاب نہیں۔

انہوں نے کہا کہ فاٹا انضمام کے بعد لیویز کو پولیس میں تبدیل کرنا، ان کی تربیت اور سٹرکچر پر کام کرنا نہایت مشکل کام ہے، ہم مرحلہ وار ان کی فنی مہارتوں اور مسائل کو حل کرنے میں مگن ہیں مگر جو اہلکار ہمارے پاس حاضر نہیں تو ان کی تربیت اور ان کو سکواڈ میں شامل کرنا ہمارے لیے مشکل ہے، جب بھی ہم نے ان غیرحاضر اہلکاروں کے خلاف کاروائی کرنا چاہی تو فاٹا انضمام مخالفین ہمارے لیے مختلف مسائل و مشکلات پیدا کرتے ہیں اس وجہ سے ہم نے نہایت حکمت کے ساتھ یہ عمل شروع کیا ہے۔

ڈی پی او باجوڑ کا مزید کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں کی سروس یقینی بنانے کیلئے ہم نے دس پولیس اہلکار بائیو میٹرک ٹریننگ کیلئے بھیجے ہیں تاکہ ہم تھانوں میں بائیو میٹرک سسٹم لگا کر اہلکاروں کی حاضری یقینی بنائیں، بائیو میٹرک نظام سے ہمیں یہ آسانی میسر آئے گی کہ دوردراز علاقوں میں جو تھانے ہیں وہاں حاضری کا ہمیں ہر وقت علم رہے گا اور وہاں سروس یقینی ہو گی اور امن و امان اور دیگر مسائل کو کنٹرول کرنا آسان ہو جائے گا، ”فاٹا انضمام کے بعد سے اب تک خواتین سے متعلق بہت سی وارداتیں ہوئی ہیں لیکن اب تک کوئی بھی ایک خواتین پولیس سٹیشن یا ایک بھی خواتین پولیس کانسٹبل باجوڑ میں نہیں ہیں جس کی وجہ سے ملزمان کو پکڑنا اور قانون کے مطابق ان کو سزائیں دینے میں مشکلات کا سامنا پڑتا ہے، اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔”

ڈی پی او باجوڑ کے مطابق کچھ عرصہ قبل خواتین کانسٹیبل کی بھرتی کیلئے اشتہار دیا گیا تھا جس میں صرف ایک خاتون نے بھرتی کیلئے درخواست دی تھی تاہم بدقسمتی سے وہ بھی نان لوکل ہونے کی وجہ سے بھرتی نہیں ہو سکے، خواتین ملزمان کو جب بھی پکڑنا ہوتا ہے تو پولیس ڈپارٹمنٹ ہسپتال سے نرسز کی خدمات حاصل کرتا ہے، جب بھی کوئی ایمرجنسی ہو تو چھاپے کیلئے تیمرگرہ اور سوات سے لیڈیز کانسٹیبل کو بلایا جاتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button