لائف سٹائل

خیبر پختونخوا کی سکھ برادری کا سب سے بڑا ڈر، جوان لڑکیوں کی جبری مذہب تبدیلی

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد آج تک خیبرپختونخوا میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی مذہبی فریضوں کو تاحال قانونی تحفظ نہ مل سکا لیکن حکام کا کہنا ہے کہ ان کی عبادات اور مذہبی فریضوں کو تحفظ دینے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔

پشاور میں رہائش پذیر قبائلی اضلاع کے سکھ برادری کے نمائندے باباجی گروپال سنگھ نے میرج ایکٹ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں اب تک سکھ برادری کیلئے میرج ایکٹ متعارف نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے خواتین کو ازدواجی مسائل اور حقوق کا سامنا رہتا ہے۔


انہوں نے کہا جس طرح مسلم برادری اور دیگر اقلیتوں کیلئے نکاح نامہ میں ایک خانہ مختص ہوتا ہے اور اس میں خاتون کو ازدواجی حقوق کیلئے قانونی تحفظ دیا جاتا ہے تو اسی طرح ان کیلئے نکاح نامہ میں کوئی بھی خانہ مختص نہیں جس کی وجہ سے اکثر سکھ برادری کی خواتین ازدواجی حقوق سے محروم رہ جاتی ہیں۔

گروپال کے مطابق پاکستان کے صوبہ پنجاب میں 2018 میں میرج ایکٹ ڈرافٹ تیار کیا گیا مگر اب تک نہ وہاں پر اسے قانونی شکل دی گئی اور نہ خیبرپختونخوا میں اس حوالے سے کوئی اقدامات اُٹھائے گئے۔

گروپال اسے ضروری سمجھتے ہیں کہتے ہیں اگر شوہر اور بیوی کے درمیان کوئی تنازعہ پیدا ہوجائے تو خاتون کی ازدواجی زندگی کو محفوظ رکھنے کیلئے میرج ایکٹ ڈرافٹ کو قانونی شکل دی جائے۔

سکھ برادری کے مذہبی فرائض میں ‘پانچ کاکر’ جن میں کرپان، کڑا، پگھ، کھنگی اور بال رکھنا شامل ہے جس کی سکھ برادری کے دسویں پیغمبر گُرو گوبند سنگھ نے 1699 میں ان پانچ چیزوں کو ان پر فرض کیا تھا۔

گروپال کا کہنا ہے کہ کرپان لگانا ہر سکھ مرد اور عورت پر فرض کیا گیا ہے لیکن انہیں سرکاری دفاتر، ہوائی جہاز میں سفر اور دیگر حساس جگہوں پر اسے لے جانے کی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

سکھ کمیونٹٰی کے مذہبی شرعہ مریادہ کے مطابق کرپان تقریباً 4 سے 8 انچ تک ایک خنجر نما چاقو کی شکل میں ہوتی ہے اور وہ کپڑوں کے نیچے ایک غلاف میں بند ہوتی ہے جو سکھ مذہب میں ایک لازمی نشان تصور کی جاتی ہے جسے سکھ برادری ناانصافی اور ظلم کے خلاف ایک علامت سمجھتے ہیں۔

گروپال نے سرکاری انتظامیہ کے رویئے کے حوالے سے بتایا کہ مجموعی طور پر انکے ساتھ سرکاری اہلکاروں کے روئے مثبت ہیں لیکن جب ضلع بھر میں موٹرسائکل کو ہیلمٹ کے بغیر چلانے پر پابندی عائد کی جاتی ہے تو انہیں پگھ کے ساتھ ہیلمٹ پہننا مشکل ہے اور اسی وجہ سے ان کے موٹرسائکل سوار پرجرمانہ کئے جاتے ہیں۔

خیبرپختونخوا میں اقلیتوں کے حقوق پر کام کرنے والے تنظیم مائنورٹی رائیٹ فورم کے چئرمین سردار رادیش سنگھ ٹونی نے سکھ برادی کے تحفظ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتی برادری کی تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ نصاب میں مواد شامل کرنے کیلئے اقلیتی برادری کے ساتھ مشاورت کی جائے مگر یہاں پر انکے مشاورت کے بغیر نصاب بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہماری مذہبی رسومات متاثر ہوتی ہیں۔

انکے مطابق سرکاری سکولوں میں دیگر مذاہب کے بچوں کے لئے انکے مذہبی مضامین کیلئے ایسی کوئی بندوبست نہیں کیا گیا تاکہ وہ اس سے مستفید ہوسکیں۔

رادیش کا کہنا ہے کہ انکے برادری کے بچے سرکاری سکولوں کی بجائے پرائیویٹ سکول میں پڑھتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پرائیویٹ سکول کی نصاب میں اقلیتی برادری کے مذہبی احترام کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔

ٹونی کے مطابق ” پہلے انکے بچے سرکاری سکول میں پڑھتے تھے، چونکہ انکے بچے پگڑی پہنتے تھے تو اکثر بچے لاعلمی اور مذہبی احترام کے بغیر نصاب کو پڑھتے ہوئے بچے انکی پگڑیاں اچالتے اور انکا مذاق اُڑاتے تھے تو اس وجہ سے انہوں نے بچوں کو سرکاری سکولوں سے نکال کر شخصی سکولوں میں بٹھا دیا”۔

سردار رادیشن نے بتایا کہ میٹرک کے بعد انکے بچے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہیں پڑھتے کیونکہ وہاں پر بھی انکے بچوں کو مذہبی منافرت کا سامنا رہتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کئی بار چئرمین ٹٰیکسٹ بُک بورڈ پشاور کے چئرمین سے بات بھی کی لیکن انکا کہنا ہے کہ نصاب ماہرتعلیم تیار کرتے ہیں جس میں اقلیتی برادری کا کوئی ممبر موجود نہیں۔

رادیش 2018 کے جنرل انتخابات میں اقلیتی برادری سے ممبر صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے جس پر تین دفعہ نامعلوم افراد نے فائرنگ کی تھی، انکا کہنا ہے کہ سال 2009 میں انکا ماموں زاد بھائی اور ایک سکھ اغواء برائے تاوان ہوئے لیکن ہم نے ان واقعات کو معمول کے واقعات سمجھنے لگے لیکن جب 2013 کے بعد اقلیتی برادری کے ٹارگٹ کے واقعات شروع ہوئے تو ہمارے درمیان تشویش پیدا ہوگئی۔

لیکن رادیش سب سے بڑا مسئلہ جبری طور پر مذہب کی تبدیلی سمجھتے ہیں، انکا کہنا ہے کہ والدین دسویں جماعت کے بعد اپنے بچیوں کو کالجز نہیں جانے دیتے کیونکہ اکثر لڑکے انہیں اغواء کرکے جبری طور پر مذہب تبدیل کروا دیتے ہیں لیکن ٹونی سنگھ نے یہ نہیں بتایا کہ اب تک کتنی بچیوں کی مذہب تبدیل کروایا جا چکا ہے۔

پشاور پولیس کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق خیبرپختونخوا میں 2013 سے 2021 تک وزیراعلٰی کے مشیر سورن سنگھ سمیت سمیت 15 سکھ مارے گئے ہیں جن میں 14 کے قتل میں نامعلوم افراد ملوث تھے۔

پشاور پولیس کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس زنیر چیمہ مطابق ان میں بیشتر افراد کی قتل کی وجوہات شدت پسندی اور مذہبی منافرت تھی جبکہ ایک سکھ نوجوان کی قتل میں انکی منگیتر ملوث تھی جس کو خاندانی مسائل کی بناء پر قتل کیا گیا تھا۔

زنیر چیمہ نے ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے بتایا کہ ان واقعات میں اب تک 7 افراد گرفتار ہوچکے ہیں اور تین بندوں کو پولیس مقابلے میں مارے گئے ہیں۔

لیکن رادیش کا کہنا ہے کہ ان کے ڈیٹا کے مطابق اب تک 30 افراد قتل کئے جاچکے ہیں اور انہی واقعات اور مسائل کی وجہ سے انکے ماموزاد بھائی اور خاندان پشاور چھوڑ کر دبئی، ننکانہ صاحب، کراچی اور حسن ابدال منتقل ہوچکے ہیں۔

"وہ خود جب 2018 میں ٹارگٹ ہوئے تو لاہور منتقل ہوئے مگر وہاں پر تحریک لبیک کے رہنماؤں نے انکے پیغمبروں کے بارے میں بُرا بھلا کہا تو اس وجہ سے وہاں پر میری لئے مشکلات بڑھ گئے پھر وہاں سے میں شفٹ ہوگیا”۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان میں سب سے پرانے شہری ہے اور ان کا حق ہے کہ انکے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے تاکہ دنیا بھر میں پاکستان میں کا مثبت چہرہ سامنے آسکے۔

خیبرپختونخوا کے اطلاعات تک رسائی (آر ٹی آئی) کے قانون کے مطابق جب محکمہ اوقاف سے پوچھا گیا کہ اب تک سکھوں کی سیکورٹی اور ان کے مالی صورتحال بہتر بنانے کیلئے کونسے اقدامات اُٹھائے گئے ہیں تو محکمہ اوقاف کی طرف سے ملنے والے جوابات کے تحت حکومت نے اقلیتی برادری کیلئے نوکریوں میں پانچ فیصد کوٹہ مختص کیا ہے۔

آر ٹی آئی کے مطابق سال 2017 میں ہونے والے مردم شماری میں سکھ برادری کیلئے الگ خانہ موجود نہیں مگر انکے اعداد و شمار کے مطابق پشاور میں 3 ہزار کے قریب سکھ برادری رہائش پذیر ہے جن میں 50 سے زائد مستحق خاندانوں کو صحت کارڈ اور راشن کارڈ فراہم کئے گئے ہیں۔

ملنے والے معلومات کے مطابق صوبہ بھر میں مختلف مذہب (بائی، مسیحی، سکھ، ہندو، پارسی، احمدی) اقلیتی برادری کی تحفظ کیلئے 1000 سے زائد پولیس اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔

مگر دوسری جانب خیبرپختونخوا کی حکومت اقلیتی برادری کی تحفظ کیلئے اپنی پالیسیاں مربوط اور تاریخی قرار دے رہی ہے، خیبرپختونخوا میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ممبر صوبائی اسمبلی اور وزیراعلی کی مشیر برائے اقلتی برادری وزیرزادہ کا کہنا ہے کہ حکومت اقلیتی برادری کی تحفظ کے حوالے کوششیں کر رہی ہے۔


وزیرزادہ نے سکھ برادری کے میرج ایکٹ کے حوالے سے بتایا کہ حکومت ہندو میرج ایکٹ میں ترمیم کیلئے سوچ رہی ہے تاکہ اس میں سکھ برادری کو شامل کرکے انہیں ازدواجی زندگی میں وہ تمام قانونی تحفظ دیں جو ہندو برادری کے لئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کرپان رکھنا سکھ کمیونٹی کے مذہبی فرائض میں اہم علامت ہے لیکن سیکورٹی صورتحال کی وجہ سے فی الحال اس پر قانونی طور پر پابندی ہے لیکن حکومت اس حوالے سے جلد کوئی فیصلہ کریگی تاکہ سکھ برادری کی مذہبی طور پر محفوظ رہ سکیں۔

مشیر مذہبی و اقلیتی امور وزیرزادہ نے سکھوں کی تحفظ کے حوالے سے بتایا کہ سکھ برادری کی اکثریت پشاور میں محلہ جوگن شاہ میں رہتی ہے جہاں پر ان کی عبادت خانہ گردوارہ بھی موجود ہیں تو انکے تحفظ کیلئے باقاعدہ پولیس گارڈ موجود ہے جو انہیں تحفظ دے رہی ہے۔

انہوں نے سکھوں کی معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے انہیں احساس پروگرام میں شامل کیا ہے اور اقلیتی برادری میں جن کی آمدن 31 ہزار روپے سے کم ہو تو انہیں احساس کارڈ بھی فراہم کیا گیا ہے

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button