ڈیرہ اسماعیل خان: دریائے سندھ آلودگی کا شکار، ماہی گیری، صحت اور ماحولیات خطرے میں

نثار بیٹنی
دریائے سندھ جو کہ پاکستان کا سب سے بڑا دریا ہے، ڈیرہ اسماعیل خان کے باسیوں کی معاشی، زرعی اور روحانی زندگی میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن افسوس کہ اب یہی دریا اپنی بقاء کے لیے تڑپ رہا ہے۔
بارشوں کی کمی، موسمیاتی تبدیلی اور چشمہ بیراج سے پانی کی بڑی مقدار کا رخ موڑنے کی وجہ سے دریائے سندھ اکثر مہینوں میں خشک دکھائی دیتا ہے۔ رہی سہی کسر شہر کا گندا پانی اور سیوریج لائنوں کا رخ دریا کی طرف موڑنے نے پوری کردی ہے۔ سیوریج سسٹم سے خارج ہونے والا بدبودار پانی براہ راست دریائے سندھ میں گرتا ہے، جس سے پانی کی کوالٹی متاثر ہوئی ہے اور آبی مخلوق بھی ناپید ہو رہی ہے۔
مطلوب سندھی، جو ایک ماہی گیر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، کے مطابق گندے پانی کی آمیزش سے مچھلی کی پیداوار میں شدید کمی آئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے جھینگا، ڈھاکہ فش، رہو اور دیگر اقسام کی مچھلیاں وافر مقدار میں دستیاب تھیں لیکن اب ان کا ذائقہ، مقدار اور معیار تینوں متاثر ہو چکے ہیں۔ اندھی وہیل، جو پاکستان میں صرف ڈی آئی خان میں پائی جاتی تھی، بھی اب دکھائی نہیں دیتی۔
ملاح امداد عرف مدو کا کہنا ہے کہ اب دریا میں کشتی چلانا مشکل ہوگیا ہے۔ بدبو اور گندے پانی کے باعث لوگ کشتی کی سیر سے بھی کتراتے ہیں، جس سے ان کا روزگار بھی متاثر ہوا ہے۔ ڈاکٹر فاروق گل بیٹنی کے مطابق شہر کے گندے پانی میں پلاسٹک بیگز، بوتلیں، صابن، کیمیکل اور واشنگ پاؤڈر شامل ہوتا ہے، جو نہ صرف دریا کو آلودہ کرتا ہے بلکہ زراعت اور انسانی صحت پر بھی برے اثرات ڈال رہا ہے۔
ڈاکٹر بیٹنی نے بتایا کہ اس پانی سے سیراب ہونے والی زمینوں میں گنا، گندم، چاول، مکئی اور سبزیاں اگتی ہیں، جو انسانی صحت کے لیے مضر ہو چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس آلودگی سے اسہال، یرقان اور پھیپھڑوں کی بیماریاں عام ہو رہی ہیں، جبکہ ہیپاٹائٹس بی، سی اور ایچ آئی وی جیسی مہلک بیماریاں بھی پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
واسا (WSSC) کے حکام نے اعتراف کیا کہ روزانہ لاکھوں گیلن گندا پانی دریا میں جاتا ہے، جس میں نہ صرف گھریلو بلکہ فیکٹریوں اور کارخانوں کا ویسٹ بھی شامل ہوتا ہے۔ واسا کے مطابق ایک جامع ٹریٹمنٹ پلانٹ کے لیے 200 کنال زمین مختص کی جا چکی ہے، اور حکومت نے اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے، جس کی سپرویژن واسا اور محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کرے گا۔
یہ پلانٹ شہر کے گندے پانی کو صاف کر کے دریا میں چھوڑے گا اور بچے ہوئے فضلات کو کھاد میں تبدیل کر کے زرعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا، جس سے نہ صرف آمدن بڑھے گی بلکہ ماحولیات کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
سرائیکی وسیب کے بیٹے رمضان سرحدی بلوچ نے بتایا کہ دریا انسانوں کی تہذیبوں کے مرکز ہوتے ہیں، جیسے دریائے نیل، فرات، دجلہ، برہم پترا، گنگا اور سندھ۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں دریاؤں کے ساتھ بے رحمی برتی جارہی ہے۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ دریا میں گندا پانی ڈالنے کا سلسلہ بند کیا جائے تاکہ آئندہ نسلیں محفوظ، صحت مند اور باوقار زندگی گزار سکیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے شہری ہر سال 23 مارچ کو دریائے سندھ میں پھول پھینک کر اس سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ روایت مقامی عوام کے لیے صرف ایک رسم نہیں بلکہ ایک پیغام ہے کہ دریا گندگی کا نہیں، محبت کا استعارہ ہے۔
ہر سال پھولوں کے ساتھ دریا سے اظہار محبت کرنے والے عوام اس امید کے ساتھ اس روایت کو نبھاتے ہیں کہ شاید حکومت اور متعلقہ ادارے کبھی جاگ جائیں اور دریائے سندھ کی اصل خوبصورتی، افادیت اور روح کو بحال کیا جا سکے۔