خیبر پختونخواعوام کی آواز

پنج کھٹہ اور سپیرئیر سائنس کالج  کے باغات، پشاور کی ہریالی کو کس کی نظر لگ گئی؟

کیف آفریدی

پشاور کے علاقے پنج کھٹہ چوک  میں سپیرئیر سائنس کالج کے ساتھ تقریباً 80 جریب زمیں پچھلے 25 سالوں سے خالی پڑی ہے۔ ایک وقت تھا جب یہاں پر آلوچے، ناشپاتی اور خوبانی کے باغات ہوا کرتے تھے جن کے اردگرد کچے مکانات ہوا کرتے تھے۔ گرمی کا اپنا دورانیہ ہوتا تھا۔ غریبی تھی لیکن زندگی میں خوشی تھی۔

یہ کہنا تھا سپیرئیر سائنس کالج کے قریب رہائش پذیر فرمان اللہ ماما کے مطابق نہ صرف یہاں پر باغات تھے بلکہ رنگ روڈ کے دونوں اطراف بھی ہریالی تھی۔ جس سے یہاں کا نہ صرف ماحول صاف تھا بلکہ اتنی بیماریاں بھی نہیں تھیں جتنی آج کل ہیں۔ اس کے علاوہ نہ بجلی تھی، نہ گیس لیکن زندگی اچھی گزر رہی تھی۔ اب ہریالی ختم ہو گئی اور ہر جگہ آبادی ہو رہی ہے۔

فرمان اللہ ماما نے مزید کہا کہ پشاور میں تقریباً ہر طرف سڑکیں پکی ہو گئیں؛ گیس اور بجلی کی فراہمی ممکن ہو گئی تاہم باغات اور ہریالی ختم ہو کر ہر طرف عمارات نظر آ رہی ہیں جس سے پشاور میں گرمی کا دورانیہ زیادہ ہو گیا۔ پرندوں کی چہچہاہٹ اب پشاور میں نہیں سنائی دے رہی۔ زندگی کا وہ مزہ نہیں جو پہلے ہوا کرتا تھا۔

پشاور میں ہریالی اور پرندوں کی نشونما کے لیے خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے بھر میں پھلدار اور مقامی درختوں کی شجرکاری کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے چند دن قبل وزیراعلی نے تمام انتظامی سیکریٹریز، کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو باقاعدہ مراسلہ جاری کیا ہے۔

اپنے دفتر سے جاری بیان میں وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے بلبل، مینا، ہدہد اور دیگر نایاب پرندوں کی نسل کے خاتمے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ پھلدار درختوں کی کمی کے باعث یہ پرندے صوبہ چھوڑ چکے ہیں۔

مراسلے میں اس مسئلے کے حل کے لیے تمام سرکاری دفاتر، کالونیوں اور دیگر مقامات پر شجرکاری کی ہدایت جاری کردی گئی ہے۔ مراسلے میں ہدایت کی گئی کہ مون سون سیزن میں بھرپور شجرکاری مہم چلائی جائے گی جس میں درمیانے قد کے مقامی پودوں کو ترجیح دی جائے گی۔

بیرسٹر ڈاکٹرسیف نے کہا کہ تمام سرکاری محکموں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی شجرکاری کی رپورٹ خود تیار کر کے جمع کرائیں۔ یہ مہم ”اپنی مدد آپ” کے تحت چلائی جائے گی۔

بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے تمام اداروں سے اس اقدام پر فوری اور اجتماعی عمل درآمد کی اپیل کی ہے۔

کیا صوبائی حکومت کے اس اقدام سے خیبر پختونخوا اور بالخصوص پشاور میں ہریالی واپس آجائی گی؟

اس حوالے سے ٹی این این نے یونیورسٹی آف پشاور انوائرمنٹل سائنس کے ڈیپارٹمنٹ چیئرمین ڈاکٹر محمد نفیس سے رابطہ کیا جنہوں نے پشاور کی ہریالی کے حوالے سے تفصیلات بیان کیں۔

وادی پشاور میں ہریالی کی کمی کے اسباب اور اس کے اثرات

ڈاکٹر نفیس کا کہنا ہے کہ وادی پشاور ایک وسیع زرخیز زمین پر مشتمل ہے۔ اس کا کل رقبہ تقریباً سات ہزار مربع کلومیٹر ہے جو اٹک سے شروع ہو کر ورسک ڈیم پر ختم ہوتی ہے۔ اس میں خیبر پختونخوا کے مشہور شہر آباد ہیں جن میں پشاور، مردان، چارسدہ، صوابی اور نوشہرہ شامل ہیں۔ یہ وادی پانچ  مشہور دریاوں کی گزرگاہ ہے جن میں دریائے کابل، دریائے سوات، دریائے باڑہ، کلپانڑی اور دریائے جیندی شامل ہیں۔ یہ سارے دریا وادی پشاور کو خوبصورت اور سرسبز بناتے ہیں۔ وادی پشاور کبھی اپنی ہریالی و شادابی کے لیے مشہور تھی لیکن گزشتہ برسوں سے نمایاں ماحولیاتی مسائل کا سامنا کر رہی ہے۔ ہریالی میں کمی کی کئی وجوہات ہیں جن میں آبادی میں اضافہ، موسمیاتی تبدیلی، بدانتظامی اور اربنائزیشن جیسے عوامل شامل ہیں۔

تیزی سے آبادی میں اضافہ اور شہری کاری

پشاور اور آس پاس کے علاقوں میں آبادی میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ سے شہر میں توسیع باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہو رہی۔ آبادی میں اضافے سے اس میں موجود جنگلات پر کافی برا اثر پڑا ہے۔ اس کے علاوہ زرعی زمین بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس پر ہاؤسنگ سکیمیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ سبز جگہوں اور دریا کے کناروں پر غیرقانونی تجاوزات (جیسے دریائے کابل کے کنارے) نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ دریاؤں سے بے تحاشا ریت نکالا جاتا ہے جس سے اس کے کنارے موجود زمینوں کو ہر وقت خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

عماراتی لکڑی اور گھریلو استعمال کے لیے جنگلات مسلسل کاٹے جا رہے ہیں۔ وادی پشاور میں بہت سارے باغات تھے۔ ان باغات اور کھیتوں کی جگہ کنکریٹ کے ڈھانچے نے لے لی ہے۔ درختوں کے ضائع ہونے سے قدرتی سایہ کم ہوا ہے، گرمی میں اضافہ ہوا ہے، اور مقامی ماحولیاتی نظام میں خلل پڑا ہے۔

ڈاکٹر نفیس کا کہنا تھا کہ وادی پشاور پر موسمیاتی تبدیلی کا گہرا اثر ہے۔ اس وادی کا گرمیوں میں اوسط درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوا کرتا تھا جو اب 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچتا ہے۔ اس سے مختلف ماحولیاتی مسائل جنم لیتے ہیں خاص کر سموگ اور پانی کی کمی۔ پانی کی کمی بڑھتی ہوئی آبادی اور پانی کے بےتحاشہ استعمال کے باعث ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور بارش کے بدلتے ہوئے پیٹرن نے خطے کو خشک بنا دیا ہے۔

دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں مسلسل کمی آرہی ہے جسے دریائے کابل اور دریائے سوات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ کمی ان دریاؤں پر بنائے گئے ڈیموں کی وجہ سے ہے۔ دریائے کابل میں پانی کی کمی کی سب سے بڑی وجہ افغانستان میں ڈیموں کی تعمیر اور ضرورت سے زیادہ پانی استعمال ہے۔ اس کے علاوہ زیرزمین پانی بھی زیر دباؤ ہے جس نے درختوں اور پودوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے باقی ملک کی طرح وادی پشاور بھی طویل خشک سالی اور گرمی کی لہروں کے زیراثر ہے جس کی وجہ سے اس وادی میں موجود ہریالی تنزلی کا شکار ہے۔

ان سب عوامل کے علاوہ وادی پشاور شدید بدانتظامی اور پالیسی کے نفاذ کی کمی کا شکار ہے۔ ماحولیاتی قوانین کے کمزور نفاذ نے غیرقانونی لاگنگ اور زمین پر قبضے معمول بن گئے ہیں۔ ناقص شہری منصوبہ بندی کی وجہ سے گرین بیلٹس اور پارکس ختم ہو رہے ہیں۔ پانی کے غیرموثر انتظام (مثال کے طور پر، زیرزمین پانی کا زیادہ استعمال، آبپاشی کے ناقص طریقوں) نے مٹی کے معیار کو گرا دیا ہے۔ انڈسٹری میں کمی دیکھی گئی ہے۔ لیکن جو کارخانے چل رہے ہیں وہ ماحولیاتی قوانین کے مطابق نہیں چلتے۔ ان میں حیات آباد انڈسٹریل اسٹیٹ، رشکئی انڈسٹریل اسٹیٹ، مردان، آمان گڑھ انڈسٹریل اسٹیٹ، نوشہرہ، اور سمال انڈسٹریل اسٹیٹ چارسدہ شامل ہیں۔

ممکنہ حل

ڈاکٹر نفیس کے مطابق جنگلات کی بحالی کی مہم چلائی جائے۔ مقامی درخت کو فروغ دیا جائے، مثلاً شیشم، کیکر اور پھلوں کے درخت جیسے مقامی درخت لگانا۔ سبز جگہوں کی حفاظت کے لیے شہری منصوبہ بندی کے سخت قوانین بنائے جائیں اور ان کو سختی سے نافذ کیا جائے۔  پانی کا بہتر انتظام، بشمول بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی اور پائیدار آبپاشی کا بندوست بہت ضروری ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کو فروغ دینے کے لیے عوامی آگاہی مہم چلائی جائے۔ کارخانوں کو ماحولیاتی قوانین کے اندر لا کر ان میں ممکنہ اضافہ کیا جائے۔

وادی پشاور کی ہریالی کا زوال ایک کثیر الجہتی مسئلہ ہے جس کے لئے صرف موسمیاتی تبدیلی کو وجہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس کے علاوہ وادی پشاور کے حالات بہت سنگین بھی نہیں ہیں۔ اگر وقت پر اقدامات کئے جائیں تو حالات قابو میں آ سکتے ہیں۔ مناسب پالیسی، عملی اقدامات اور کمیونٹی کی شمولیت سے کچھ حد تک نقصانات کو آسانی سے دور کیا جا سکتا ہے۔

Show More

Kaif Afridi

Kaif Afridi is working as a journalist from past 9 years in Peshawar. He belongs to District Khyber. He has vast experience in multimedia work including Digital reporting, News Anchoring and currently working as a Video Editor in Tribal News Network TNN

متعلقہ پوسٹس

Back to top button