فیکٹ چیکنگ سے لاعلمی: صحافی دھمکیوں اور مقدمات کی زد میں

رفاقت اللہ رزڑوال
"اگر میں فیکٹ چیکنگ کے ڈیجیٹل ٹولز سے واقف ہوتا، تو شاید کبھی شرمندگی نہ اٹھاتا۔” خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والے رپورٹر محبوب علی ماضی کی ایک خبر کو یاد کر کے آج بھی افسردہ ہو جاتے ہیں۔
محبوب گزشتہ گیارہ سالوں سے نجی ٹیلی ویژن کے ساتھ وابستہ ہیں، لیکن آج بھی ایک غلط اطلاع پر کی گئی رپورٹنگ کو اپنے صحافتی کیریئر کی سب سے بڑی غلطی سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں جہاں ڈیجیٹل میڈیا خبروں کے حصول کو آسان بنا رہا ہے، وہی بغیر تصدیق کے وائرل ہوتی جعلی خبریں، ویڈیوز اور تصاویر صحافیوں کے لیے نئے خطرات کھڑے کر رہی ہیں۔ خاص طور پر دور دراز علاقوں میں کام کرنے والے صحافی اکثر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے نابلد ہونے کے باعث فیک نیوز کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور اس کے نتائج صرف پیشہ ورانہ نہیں، ذاتی اور قانونی بھی ہو سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ استعمال اور جان سے مارنے کی دھمکیاں
چارسدہ ہی سے تعلق رکھنے والے صحافی مرجان علی کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ وہ 8 سال سے صحافت کر رہے ہیں اور ایک مقامی فیس بک پیج چلاتے ہیں۔ ایک بار انہوں نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں کچھ نوعمر لڑکے سگریٹ پیتے دکھائی دیے۔ ویڈیو کے ساتھ ایک تعلیمی ادارے کا نام بھی درج تھا۔ مرجان نے بغیر تصدیق وہ ویڈیو اپ لوڈ کی اور جب ویڈیو وائرل ہوئی تو نہ صرف متعلقہ کالج کی انتظامیہ بلکہ ویڈیو میں موجود نوجوانوں کی طرف سے بھی سخت ردعمل آیا۔
مرجان بتاتے ہیں کہ "کالج کے پرنسپل نے ویڈیو کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے طلبہ نہیں ہیں۔ جبکہ ویڈیو میں شامل لڑکوں نے مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔”
مرجان نے بالآخر معافی مانگی، ویڈیو حذف کی اور تھانے میں رپورٹ بھی درج کرائی، لیکن ان کے مطابق، اگر وہ ڈیجیٹل فیکٹ چیکنگ کے ٹولز سے واقف ہوتے تو ایسی صورتحال سے بچ سکتے تھے۔
50 کروڑ روپے کا ہرجانہ – جب خبر بغیر تصدیق کی ہو
اس کے برعکس محبوب علی کا معاملہ اور بھی سنگین ہوگیا۔ انہیں ایک واٹس ایپ گروپ میں پشاور کے ایک اعلیٰ افسر کے خلاف زمین پر قبضے کی خبر ملی۔ انہوں نے اسے مزید گروپس میں آگے بڑھا دیا۔ لیکن یہ خبر جھوٹی نکلی اور انہیں 50 کروڑ روپے ہرجانے کا قانونی نوٹس موصول ہوا۔
محبوب اس وقت کو یاد کرتے ہو بتاتےہیں کہ "میں اس وقت تک مطمئن تھا کہ خبر ایک صحافی نے بھیجی تھی، اس لیے درست ہوگی لیکن جب نوٹس ملا، تب اندازہ ہوا کہ تصدیق کے بغیر خبر شیئر کرنا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔”
محبوب نے معذرت بھی کی، خبر بھی ہٹائی اور آج وہ دیگر صحافیوں کو بار بار تصدیق کی تلقین کرتے ہیں۔
تربیت کی کمی اور بریکنگ نیوز کا دباؤ
پشاور میں آج نیوز کی بیورو چیف فرزانہ علی کہتی ہیں کہ خیبر پختونخوا میں متعدد صحافی بغیر کسی پیشگی تربیت کے صحافت میں آ جاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے اصولوں سے ناواقف رہتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ "ہر صحافی چاہتا ہے کہ وہ سب سے پہلے خبر بریک کرے۔ اس جلد بازی میں اکثر جعلی خبر شیئر ہو جاتی ہے اور بعد میں جب وہی خبر جھوٹی ثابت ہو، تو صحافی کی ساکھ پر سوال اٹھتے ہیں۔”
فرزانہ خود بھی مانتی ہیں کہ ان سے ماضی میں سوشل میڈیا پر خبر کی یک طرفہ رپورٹنگ ہوئی، جسے انہوں نے بعد میں حذف کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ غلطی تسلیم کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں، لیکن تربیت بہت ضروری ہے ۔
"سیکھنا ہوگا ورنہ خطرے بڑھتے جائیں گے”
سائبر سیکیورٹی کی ماہر اور ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف )سے تعلق رکھنے والی سیرت کہتی ہیں کہ صحافیوں کو نہ صرف فیک نیوز کا مقابلہ کرنے کے لیے تربیت درکار ہے بلکہ انہیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آرٹیفشل انٹیلیجنس جیسے جدید ٹولز کیسے غلط معلومات کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔
سیرت کا کہنا ہے کہ اب صحافیوں کے لیے لازم ہے کہ وہ جانیں کون سے AI ٹولز ان کے لیے مددگار ہیں اور کون سے انہیں دھوکہ دے سکتے ہیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ صحافیوں کی رپورٹنگ سے عوامی رائے بنتی ہے، اس لیے ان کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ ڈی آر ایف کو پچھلے سالوں میں 16,849 کیسز موصول ہوئے جن میں اکاؤنٹ ہیکنگ، ڈیٹا لیک، ہراسگی اور جعلی تصاویر شامل تھیں۔ ان کے مطابق، صحافیوں کے لیے ایک ہیلپ لائن (0800-39393) بھی دستیاب ہے جو قانونی اور نفسیاتی معاونت فراہم کرتی ہے۔
حل کیا ہے؟
پاکستان میں فیک نیوز کی وجہ سے صحافی نہ صرف سماجی دباؤ بلکہ عدالتی کاروائیوں، مالی نقصان اور جسمانی خطرات کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے نہ صرف میڈیا اداروں بلکہ صحافتی تنظیموں کو بھی فوری اور مؤثر تربیتی اقدامات کرنے ہوں گے۔
بقول محبوب علی ’’صحافیوں کو ضلعی سطح پر تربیت چاہیے۔ اگر صحافیوں کو فیکٹ چیکنگ ٹولز سکھا دیے جائیں تو ہم خود بھی محفوظ رہ سکتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ ہونے سے بچا سکتے ہیں۔”