پشاور کا سینما کلچر دم توڑنے لگا، تاریخی پیکچر ہاؤس سینما مسمار

عبدالقیوم آفریدی
پشاور میں سینما کلچر معدومی کا شکار ہوتا جا رہا ہے، جس کی بڑی وجہ کمرشلائزیشن ہے، کابلی گیٹ سے متصل سینما روڈ کی وجہ تسمیہ یہاں تین سینما گھروں کا ہونا تھا۔ جو اب صرف نام کا ہی سینما روڈ رہ گیا۔ اس روڈ پر موجود آخری سینما گھر ”پیکچر ہاؤس“ کی بھی مسمار ی شروع ہوگئی ہے اور آئندہ چند روز میں پیکچر ہاؤس سینما خالی پلاٹ میں تبدیل ہوجائے گا، کئی ماہ پہلے اندر شہر کے قریب واقع ناز سینما کو بھی مسمار کیا گیا تھا جس کے بعد اب پشاور میں صرف چار سینما گھر ہی رہ گئے جو کبھی ایک درجن سے زیادہ تھے۔
سینما منتظمین کے مطابق پشاور شہر کی تاریخی اہمیت کی حامل کابلی گیٹ کے قریب قائم یہ سینما قیام پاکستان سے قبل تعمیر کیا گیا۔ جو پیکچر ہاؤس کے نام سے جانا جاتا ہے ، پنجاب کے رہائشی وقار ،جو پیکچر ہاؤس سینما میں گزشتہ چار دہائیوں سے پراجیکشنسٹ کے طور کام کر رہے تھے ، کا کہنا ہے کہ یہ سینما گھر 1938ءمیں قائم کیا گیا جو خاموش فلموں کا دور تھا اور خاموش فلمیں ہی اس سینما سکرین کی زینت بنتی تھیں جنہیں شائقین کافی پسند کرتے تھے ۔اسی دوران سوتی فلموں کا آغاز بھی ہوگیا، جو اسی سینما کی زینت بنیں، ان کا کہنا تھا سینما گھر میں سات سو افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔
70 اور 80 کی دہائی میں لوگ فیملی کے ساتھ یہاں فلمیں دیکھنے آتے تھے۔ فلم لگتے ہی پہلے مرحلے میں فیملیز کے لئے دروازے کھولے جاتے تھے جبکہ دوسرے مرحلے میں صرف مردوں کو ہال میں جانے کی اجازت دی جاتی تھی۔ پیکچر ہاؤس سینما کی سکرین پر ہندی ، اردو ، پنجابی اور پشتو فلمیں چلائی جاتی تھیں، جس سے شائقین محظوظ ہوتے تھے، یہ ایسا دور تھا جب سینما روڈ پر ایک رونق ہوتی تھی، اسی سڑک پر دو اور سینما گھر ناولٹی اور تصویر محل کے نام سے قائم تھے، جو کمرشلائزیشن کی نذر ہوگئے اور اب وہاں بڑے بڑے پلازے تعمیر ہیں، اب پکچر ہاؤس کی جگہ بھی شاید کوئی پلازہ ہی تعمیر ہوگا۔
وقار کا مزید کہنا کہ پہلے وقتوں میں فلم کی کہانی، اسکرپٹ ،ڈائیلاگ سے لے کر پروڈکشن تک سب کچھ بہت بہترین تھا لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اس کا معیار گرتا گیا جبکہ رہی سہی کسر موبائل، انٹرنیٹ اور آن لائن پلیٹ فارمز نے پوری کردی، جس کے باعث سینما سے شائقین روٹھ گئے، انہوں نے کہا کہ ہر چیز مہنگی ہونے کی وجہ سے بھی اخراجات کو پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور بالآخر مالکان سینما گرانے پر مجبور ہو گئے۔
پشاور کے مختلف علاقوں میں 15 سے زائد سینما قائم تھے، ان علاقوں میں پشاور صدر، خیبر بازار، فردوس، بالاحصار روڈ، گلبہار اور کابلی گیٹ شامل ہیں۔ جہاں بیشتر سینما گھروں کی جگہ اب پلازوں نے لے لی ہے ۔ پشاور میں اس وقت صرف چار سینما گھر رہ گئے ہیں جو اپنی بقاءکی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن ثقافت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اگر اس جانب توجہ نہ دی گئی تو عنقریب باقی ماندہ سینما گھربھی جلد ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔
شیر عالم شینواری جو عرصہ دراز سے انگریزی اخبار ڈان کے لئے ادب اور ثقافت کے موضوع پر لکھتے ہیں، وہ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ جب معاشرے سے شعر و ادب اور فن وثقافت دور ہوجاتے ہیں تو ایک پرتشدد معاشرہ وجودمیں آتا ہے۔ پشاور کے سینما گھروں میں زیادہ تر پشتو فلموں کی نمائش ہوتی تھی لیکن کمرشلائزیشن نے سینما کلچر کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے۔
کئی دہائیوں سے میوزک انڈسٹری سے وابستہ شاہد گل نے بتایا کہ وہ عرصہ دراز سے اوڈین میوزک سنٹر کے نام سے دکان چلا رہا تھا، جو اب ختم ہو گئی ہے ، انہوں نے پیکچر ہاؤس سینما کے حوالے سے اپنی یادیں شیئر کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر کئی سینما ہالز تھے جو سینما روڈ کی رونق کی بڑی وجہ تھی، جوانی میں یہاں کئی فلمیں دیکھیں ، اپنے وقت کی مشہور فلم باغی ہم نے پکچر ہاؤس میں ہی دیکھی تھی، ان کا مزید کہنا تھا کہ اب موبائل-فون کا دور ہے اور سب کچھ جیب میں آ گیا آپ جو چاہیں دیکھ سکتے ہیں، اب فلموں کا وہ معیار بھی نہیں رہا کہ لوگ تین تین گھنٹے اسے دیکھنے کےلئے بیٹھیں اور نہ ہی فلم کی کہانیوں میں کوئی جان ہوتی ہے۔
انکا کہنا ہے کہ پہلے دور کی فلموں کی کہانیاں سبق آموز ہوتی تھیں اور شائقین سینما سے واپسی پر بہت کچھ سیکھ کر جاتے تھے۔ شاہد گل کہتے ہیں پہلے پشاور میں مجموعی طور 18 سنیما گھر ہوتے تھے جہاں ہر قسم کی فلموں کی نمائش ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان میں کمی آنے لگی اور فلم بین کم ہونے لگے یہی وجہ ہے کہ پشاور میں اب صرف 4 سنیما رہ گئے ہیں اور کمرشلائزیشن کی وجہ سے پشاور میں سینما کلچر دم توڑ رہا ہے۔
صحافی جمیل خان جو گزشتہ ایک دہائی سے سٹی رپوٹنگ کر رہے ہے، وہ بتاتے ہیں کہ سینما کلچر کی زوال پذیری اور دیگر عوامل کے علاوہ امن و امان کی مخدوش صورتحال بھی ہے ۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ تقریبا 11سال قبل فروری میں دو سینما گھروں شمع اور اسی پیکچر ہاوس میں دھماکے بھی ہوئے تھے، جن میں مجموعی 15سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
جمیل خان نے بتایا کہ اس کے بعد سینما پر بہت برا اثر پڑا اور کچھ وقت کےلئے سیکیورٹی کی خراب صورتحال کے بنا پر شہر کے سینما گھر کو بند کردیئے جو بعد میں کھل گئے۔
پشتو ڈراموں اور فلموں کے اداکار زرداد بلبل نے ٹی این این کو بتایا کہ سینما کلچر پشاور سے ختم ہو رہا ہے جس کی بڑی وجہ جدید ٹیکنالوجی ہے ، اب پشتو کی وہ فلمیں نہیں بنائی جارہی جس کو دیکھنے کے لئے لوگ سینما کا رخ کرے۔
53 سالہ زرداد بلبل کا کہنا ہے کہ جب سے شوبز انڈسٹری میں قدم رکھا ہے۔ پشاور کے سینما گھروں کا پرانا نظام اور پرانی کرسیاں ہیں، جب بیٹھ جائے اور اٹھے لگے تو ادھے کپڑے کرسیوں میں رہ جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ فلم ڈائریکٹر اور رائٹر بھی پہلے جیسے نہیں رہے، غیر معیاری فلموں کی وجہ سے شائقین نے سینما آنا چھوڑ دیا تو ایسے میں سینما چلنا مشکل ہوجاتا ہے اور مالکان سینما گرا لیتے ہیں جو فن اور ثقافت کا بڑا نقصان ہے۔
زرداد بلبل نے مزید بتایا کہ خیبر پختونخوا کے محکمہ ثقافت صوبے میں فن، ادب اور ثقافت کی ترویج کےلئے کوئی اقدمات نہیں کر رہے ہیں وہ صرف تنخواہیں لے رہے ہیں لیکن کام نہیں کرتے۔ پشاور میں ایک ہی نشتر ہال ہے اس میں اگر کوئی ڈرامہ یا شو کرنا ہو تو تین گھنٹے کےلئے 85 ہزار روپے تک کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔
ایسے میں کیسے سرگرمیوں کا انعقاد ممکن ہوگا؟
زرداد بلبل نے مزید کہا کہ رمضان المبارک میں ایک ٹی وی کی شو میں شرکت کی اس کا معاوضہ تاحال نہیں ملا اور دوسری بات ہماری فنکار برادری بھی قصوار ہے جو اس کے لئے آواز نہیں اٹھا رہے ہیں اگر یہ سب ایسا چلتا رہا تو پشاور سے سینما گھر سمیت ثقافتی سرگرمیاں مکمل طور ختم ہوجائے گی ۔