کیا کھلونا بندوقوں پر پابندی خیبر پختونخوا میں تشدد کے رجحانات کو روک سکے گی؟

رفاقت اللہ رزڑوال
عیدالفطر کی خوشیوں میں اضافے کے لیے خیبر پختونخوا حکومت نے بچوں کے کھلونا بندوقوں، پٹاخوں، آتشبازی کے سامان اور پریشر ہارنز کی خرید و فروخت پر دفعہ 144 کے تحت پابندی عائد کر دی ہے۔ کمشنر پشاور کی ہدایات پر صوبہ بھر کے ڈپٹی کمشنرز نے 18 مارچ کو حکم نامے جاری کیے، جو 8 اپریل تک نافذ العمل رہیں گے۔ اس اہم فیصلے کا مقصد بچوں کی ذہنی و نفسیاتی صحت کا تحفظ اور معاشرے میں تشدد کے رجحانات کو روکنا ہے۔
اعلامیے کے مطابق، "اگر کسی دکاندار کے پاس یہ ممنوعہ اشیاء پائی گئیں تو ان کے خلاف دفعہ 188 کے تحت قانونی کارروائی کی جائے گی اور سامان ضبط کر لیا جائے گا۔” حکومتی فیصلے کی بنیاد ان رپورٹس پر رکھی گئی ہے، جن میں کہا گیا ہے کہ یہ مواد بچوں کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں اور ان میں تشدد کے رجحانات پیدا کرتا ہے۔
بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے کارکنوں نے حکومت کے اس فیصلے کو بروقت اور انتہائی مثبت قرار دیا ہے۔ سماجی کارکن نصرت طوفان نے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ "کھلونا بندوقیں اور پستول، جو کہ بظاہر بے ضرر لگتے ہیں، حقیقت میں بچوں کے ذہن میں اسلحے کا تصور بٹھا دیتے ہیں۔”
ان کا کہنا تھا کہ جب بچے بچپن میں ہی ہتھیاروں کو کھیل کا حصہ بنا لیتے ہیں، تو یہ بڑے ہو کر تشدد کی راہ پر چلنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
ماہر نفسیات اور چارسدہ کی ری ہیبیلیٹیشن سنٹر کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، صبا خان نے بھی اس فیصلے کی حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ "کھلونا بندوقیں بچوں کی نفسیات پر منفی اثرات ڈالتی ہیں اور غصے کو پروان چڑھاتی ہیں۔”
صبا خان کہتی ہے "بچے بچپن میں سیکھنے کے عمل سے گزرتے ہیں اور اس دوران ضروری ہے کہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے مثبت اقدامات کئے جائیں۔ کیونکہ بچپن میں بچے ذہن سازی کے عمل سے گزرتے ہیں، اگر اس دوران وہ بندوقوں کا استعمال کرنا شروع کر دیں تو نہ صرف ان کی جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ ان کی ذہنی حالت بھی خراب ہو جاتی ہے۔”
انہوں نے والدین، اساتذہ اور معاشرتی رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ بچوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کریں اور اس فیصلے کی حمایت کریں۔
دکانداروں کی مشکلات اور حکومتی نگرانی کا چیلنج
چارسدہ میں ایک ہول سیل ڈیلر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ "ہم کھلونا بندوقیں اس لیے بیچتے ہیں کیونکہ بچے ان میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔”
ان کا کہنا تھا کہ جب تک کھلونا بندوقیں فروخت نہ کی جائیں، دوسرے کھلونوں کی فروخت میں مشکل پیش آتی ہے۔
دوسری طرف، کچھ دکانداروں نے اس فیصلے کے بعد اپنے کاروبار میں مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ ایک دکاندار نے بتایا کہ "ہم غریب لوگ ہیں، چھوٹے نفع کی لالچ میں ہم یہ کاروبار کرتے ہیں، مگر جب گرفتاریاں اور سامان کی ضبطگی ہوتی ہے تو ہمارا پورا نقصان ہو جاتا ہے۔”
تاجروں کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کے لیے اس فیصلے کو عملی طور پر نافذ کرنا ایک چیلنج ہوگا، خاص طور پر عید کے قریب بازاروں میں رش کے دوران جب دکاندار ممنوعہ کھلونے چھپ کر فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم، اگر یہ پابندی کامیابی سے نافذ ہو جاتی ہے، تو یہ بچوں کی ذہنی صحت کے تحفظ میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا اور خیبرپختونخوا میں تشدد کے رجحانات کو روکنے میں مدد ملے گی۔