خیبر پختونخواعوام کی آواز

لیبیا کشتی حادثہ: باجوڑ کے سراج الدین کی دلی خواہش کیا تھی؟

اس نے پولٹیکل سائنس میں ایم اے کیا تھا۔ ملاکنڈ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز ڈگری حاصل کرنے، اور نوکری کے لئے کافی دوڑ دھوپ کے باوجود جب نوکری نہیں ملی تو 2022 میں سعودی عرب چلا گیا۔ والد اقبال محمد

لیبیا کے ساحل پر ڈوبنے والی کشتی میں 63 پاکستانیوں میں باجوڑ کے علاقہ صدیق آباد پھاٹک کے سراج الدین ولد اقبال محمد بھی شامل ہیں۔ مرحوم سراج الدین کے والد اقبال محمد کے مطابق ان کا بیٹا گزشتہ تین سالوں سے سعودی عرب میں روزگار کے سلسلے میں مقیم تھا۔ اس نے پولٹیکل سائنس میں ایم اے کیا تھا۔ ملاکنڈ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز ڈگری حاصل کرنے، اور نوکری کے لئے کافی دوڑ دھوپ کے باوجود جب نوکری نہیں ملی تو 2022 میں سعودی عرب چلا گیا۔

اقبال محمد نے بتایا کہ گزشتہ 15 دنوں سے سراج کا گھر والوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔ اب پتہ چلا کہ وہ چھ دن قبل لیبیا کشتی حادثے میں جان کی بازی ہار گیا ہے: "ہم وزارت خارجہ، اور ایف اۤئی اے حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ اس بارے تصدیق کر کے ہمیں میت حوالہ کیا جائے۔”

سراج کے والد محمد اقبال کا کہنا تھا کہ ان کے چار بیٹوں اور تین بیٹیوں میں سراج سب سے بڑا بیٹا تھا۔ محمد اقبال خود ایک محنت کش ہے اور بمشکل دو وقت روٹی کماتا ہے: "میرے بیٹے سراج کی دلی خواہش تھی کہ وہ مجھے، میری والدہ اور اپنی ماں کو حج اور عمرے پر لے جائے۔ؒؒ” مرحوم کے گھر پر فاتحہ خوانی کیلئے لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ گھر میں ماتم کا سماں ہے اور ہر آنکھ اشکبار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں فارمیسیز کے لائسنس کے قوانین میں سختی

باجوڑ کے رکن قومی اسمبلی مبارک زیب خان نے لیبیا میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا اور فارن آفس کو ڈیڈ باڈیز لانے کیلئے فوری طور پر خط لکھ دیا۔ فارن آفس میں ڈزاسٹرز ڈی جی شہزاد خرم سے ملے۔ انہوں نے فوری طور پر لیبیا میں موجود سفیر سے ایم این اے مبارک زیب خان کی بات کرائی اور انہیں پورے پراسیس سے آگاہ کیا۔ مبارک زیب خان کو بتایا گیا کہ پختونخوا سے 16 بندے شامل ہیں جن میں سے باجوڑ، پشاور اور اورکزئی سے ایک ایک بندہ جبکہ کرم کے 13 مسافر شامل ہیں۔

ایم این اے مبارک زیب خان نے مرحومین کیلئے مغفرت کی دعا کی اور کہا: "غم کی اس گھڑی میں ہم غمزدہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ ہم بھرپور کوشش کریں گے کہ ڈیڈ باڈیز کو جلد سے جلد پاکستان لے کر آئیں۔”

ضلع باجوڑ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی کئی جوان یورپ جانے کی کوشش میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ زیادہ تر ایران کے راستے سے جانے والے موت کا شکار ہوئے تو کئی ٹریفک حادثات میں مارے گئے، کئی لاپتہ ہو گئے، بعض اب تک لاپتہ ہیں۔

کئی سال قبل یورپ جانے والے باجوڑ کے نوجوان ضیاء الرحمن نے بتایا کہ نوجوانوں کو سب سے پہلے قانونی طریقے سے یورپ جانا چاہئے کیونکہ غیرقانونی راستوں میں موت کا خطرہ درپیش ہوتا ہے: ”جب کوئی غیرقانونی طور پر یورپ جانے والوں کو تکالیف اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔راستے کا تو سبھی کو پتہ ہے اللہ ہی جان بچا سکتا ہے لکین وہاں پہنچ کر پہلے نمبر پر آپ وہاں بغیر ویزے کے کوئی کام نہیں کر سکتے۔ ویزہ لینے کے لئے آپ کو پناہ کی درخواست دینا ہو گی اور وہ آپ کی قسمت پر ہے کہ آپ کو کتنے سال بعد ویزہ ملتا ہے؛ یا سرے سے نہیں ملتا وہ بھی آپ کے کیس اور ثبوت پر منحصر ہے۔ فرض کریں آپ خوش قسمت ہیں اور آپ کو ویزہ مل جاتا ہے تو ویزے کے بعد زبان کا مسئلہ ہے۔ اگر آپ کو زبان نہیں آتی تو آپ کو کام نہیں ملے گا۔ چلو آپ نے زبان سیکھ لی پھر بھی اگر آپ کے پاس کوئی ہنر نہ ہو تو آپ اچھے پیسے نہیں کما سکتے۔ تو براہ مہربانی کوشش کریں کہ کسی لیگل طریقے سے یورپ میں انٹری کریں تاکہ راستے کی مشکلات اور بہت سی تکالیف سے بچ سکیں۔ بے شک بے روزگار لوگ تنگ ہوں گے لپکن لاکھوں روپے خرچ کر کے غیرقانونی طریقے سے یورپ پہنچ کر بے روزگار بیٹھنے سے بہتر ہے کہ گھر بے روزگار بیٹھ کر قانونی طور پر یورپ جائیں۔ اپنی زندگی کا خیال رکھیں آپ کی جان آپ کے خاندان کے لئے قیمتی ہے۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button