نگراں دور میں بھرتی ہونے والے ہزاروں سرکاری ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ
صوبائی اسمبلی نے اس حوالے سے بل کثرت رائے سے منظور کر لیا۔ بل کا اطلاق 22 جنوری 2023 سے 29 فروری 2024 کے درمیان بھرتی ہونے والے افراد پر ہو گا۔
خیبر پختونخوا حکومت نے نگراں دور میں بھرتی ہونے والے ہزاروں سرکاری ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا؛ صوبائی اسمبلی نے اس حوالے سے بل کثرت رائے سے منظور کر لیا۔ بل کا اطلاق 22 جنوری 2023 سے 29 فروری 2024 کے درمیان بھرتی ہونے والے افراد پر ہو گا۔
بل کے متن کے مطابق سن کوٹہ اور اقلیتی کوٹہ سمیت پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہونی والی بھرتیوں کو استثنیٰ حاصل ہو گا۔ صوبہ بھر میں نو ہزار سے زیادہ ملازمین متاثر ہوں گے۔ ممکنہ طور پر فارغ ہونے والوں نے احتجاج کی دھمکی دے دی۔
نگران دور میں کنتے افراد کس کس محکمے میں بھرتی ہوئے؟
ٹی این این کو موصول ہونے والی لسٹ کے مطابق اب تک کل 9700 سے زائد ملازمین کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے۔ فہرست کے مطابق سب سے زیادہ غیرقانونی بھرتیاں محکمہ پولیس میں کی گئیں جہاں کل 4019 ملازمین بھرتی ہوئے۔
اسی طرح دوسرے نمبر پر محکمہ ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن میں کل 2323 بھرتیاں کی گئیں۔ دستاویز کے مطابق نگراں دور میں محکمہ اعلیٰ تعلیم میں بھی غیرقانونی بھرتیاں ہوئیں۔ محکمہ اعلیٰ تعلیم میں کل 702 بھرتیاں کی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی وزیرستان: شدت پسندوں کے ساتھ جھڑپ میں آرمی آفیسر شہید؛ 3 اہلکار زخمی
اسی طرح محکمہ صحت میں نگران حکومت نے 693 افراد بھرتی کیے۔ محکمہ ایڈمنسٹریشن آف جسٹس میں بھی 339 افراد بھرتی کرائے گئے۔ محکمہ بلدیات میں 192، محکمہ ایری گیشن میں 188، اور محکمہ حیوانات اور زرعت میں 175 ملازمین بھرتی کئے گئے۔
محکمہ جیل خانہ جات میں 159، محکمہ پبلک ہیلتھ میں 137 افراد، محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس میں 120 جبکہ سوشل ویلفیئر میں 112 بھرتیاں کی گئیں۔ محکمہ محنت، محکمہ داخلہ، محکمہ انڈسٹریز اور فشریز میں بھی بھرتیاں کی گئیں۔
منگل کو خیبر پختونخوا حکومت نے نگران دور میں بھرتی کئے گئے ملازمین کو ہٹانے کیلئے قانون اسمبلی سے بل پاس کر لیا۔
قانون کیا کہتا ہے؟
سینئر قانون دان فضل شاہ مہمند نے اس حوالے سے بتایا کہ یہ بھرتیاں قانون کے مطابق نہیں ہوئیں بلکہ ان بھرتیوں کے حوالے سے یہ بھی الزام ہے کہ یہ بھرتیاں پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ہوئی ہیں۔ قانون کے مطابق نگراں دور کو ڈے ٹو ڈے افیئرز کو چلانا ہوتا ہے اور صونے یا وفاق کی سطح پر صاف شفاف انتخابات کا انعقاد کرانا ہوتا ہے جس کے حوالے سے الیکشن ایکٹ بھی واضح ہے جبکہ کسی کو نوکری دینا یا نوکری سے برخاست کرنا ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔
فضل شاہ مہنمد کے مطابق کسی بھی قسم کی بھرتی کا اختیار منتخب حکومتوں کے پاس ہوتا ہے؛ نگراں حکومت کو آئین وقانون میں اس کی اجازت نہیں ہے کیونکہ الیکشن ایکٹ میں واضح طور لکھا گیا ہے کہ نگراں دور میں ٹرانسفر و پوسٹنگ پر سخت پابندی عائد ہوتی ہے۔ اس بل سے متاثر ہونے والے افراد اس کے خلاف عدالت جا سکتے ہیں۔ عدالت اسمبلی میں پاس ہونے والے بل کا بغور جائزہ لے گی اور اس کے بعد اس حوالے سے فیصلہ کرے گی۔ عدالت کو یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ اس بل یکسر مسترد کر دے۔
سینئر صحافی محمد فہیم نے اس کو ایک اچھا فیصلہ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے بجا طور پر غیرقانونی طور پر بھرتی ہونے والے ملازمین کو فارغ کرنے کا بل پاس کیا ہے کیونکہ نگراں حکومت کے پاس یہ اختیار نہیں تھا۔ قانون کے مطابق نگراں حکومت بھرتیاں نہیں کر سکتی۔ انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے جو بل پاس کیا ہے اس میں بہت سے قانونی پہلوؤں کو کوور کیا گیا ہے۔
محمد فہیم نے بتایا کہ جن کا نگراں دور سے پہلے ٹسٹ یا انٹرویو ہوا ہے اور جن پوسٹوں کو پہلے مشتہر کیا گیا ہے وہ ملازمین اس بل سے متاثر نہیں ہوں گے۔ اس کے علاوہ سن کوٹہ، اقلیتی کوٹہ اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی ہونے والے ملازمین پر بھی اس بل کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اس فیصلے کے ساتھ حکومت کو یہ بھی دیکھنا چاہیے تھا کہ جن محکمہ جات میں ان ملازمین کو بھرتی کیا گیا ان کے خلاف بھی ایکشن لینا ضروری تھا کیونکہ اس وقت کی بیوروکیرسی ان افراد کو بھرتی کرنے سے انکار کر سکتی تھی۔ ان کو بھی پتہ تھا کہ بھرتی کا مینڈیٹ نگراں حکومت کے پاس نہیں ہے۔ اس میں صوبے کی بیوروکریسی بھی شامل ہے۔ صوبائی حکومت کو ان کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہئے۔
اسمبلی میں پیش کئے گئے بل میں کہا گیا ہے کہ سابق نگراں دور حکومت میں غیرقانونی طور پر بھرتی کیے گئے سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کیا جائے گا، تمام ادارے نگران دور میں بھرتیوں کے حوالے سے 30 دن میں رپورٹ مرتب کریں گے جبکہ اس ضمن میں متعلقہ ادارے جلد نوٹیفکیشن جاری کریں گے۔
بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر اس حوالے سے کوئی بھی قانونی پیچیدگی آڑے آئی تو اس کیلئے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی سربراہی میں 6 رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو اس کا جائزہ لے گی۔ کمیٹی میں ایڈووکیٹ جنرل لاء، محکمہ خزانہ، انتظامیہ اور دیگر متعلقہ اداروں کے سیکریٹریز شامل ہوں گے۔
صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم نے کہا کہ اس حوالے سے متعدد میٹنگز اور اجلاس بلائے گئے لیکن اس کے باوجود نگراں دور میں بھرتی کئے گئے ملازمین کی کل تعداد نہیں بتائی گئی: "ہمیں اب تک مختلف محکموں میں بھرتی کئے گئے 9762 ملازمین کا ریکارڈ ملا ہے۔ اِن میں فی الحال ڈھائی سے 3 ہزار تک غیرقانونی طور پر بھرتی ہونے والے ملازمین کو برخاست کر رہے ہیں۔
اسبملی میں خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن رکن احمد کنڈی نے حکومت کے اس عمل کو تنقید کانشانہ بناتے ہوئے کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت روزگار دینے کے بجائے عوام سے نوکریاں چھین رہی ہے۔ لوگوں کو نوکریوں سے نکالنے کے بجائے غیرقانونی بھرتیاں کرانے والے ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہیے۔
دوسری جانب متاثرہ ملازمین نے اس فیصلے پر احتجاج کی دھمکی دی ہے اور عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔