کرم: ”128 بچوں سمیت 200 افراد جاں بحق”
یہ دعوی ہے ضلع کرم کی سول سوسائٹی کا جو ضلع بھر کے عوام کی طرح گزشتہ ڈھائی ماہ سے زائد عرصہ سے محصور ہے۔
"خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں اشیائے خوردونوش اور ادویات کی قلت سے اب تک 128 بچوں سمیت 200 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔” یہ دعوی ہے ضلع کرم کی سول سوسائٹی کا جو ضلع بھر کے عوام کی طرح گزشتہ ڈھائی ماہ سے زائد عرصہ سے محصور ہے۔
ضلع کرم میں راستوں کی بندش کو 80 سے زائد روز ہو گئے ہیں، راستوں کی بندش ہر گزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہوتی صورتحال کا باعث بن رہی ہے۔
درایں اثنا پاراچنار پریس کلب کے باہر دھرنا دسویں گیارہوں دن بھی جاری ہے، چنار آباد، سلطان اور گوساڑ سمیت پانچ دیگر مقامات پر بھی میں احتجاجی دھرنے جاری ہیں۔ مظاہرین کا یہی مطالبہ ہے کہ راستوں کو فوری طور پر کھولا، اور محفوظ بنایا جائے، اور دویات کی قلت کے خاتمے، اور اشیائے ضروریہ کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
علاوہ ازیں لوئر کرم کے علاقے بگن میں علاقے کی دکانوں اور گھروں کو نقصان پہنچنے کے خلاف احتجاجی دھرنا شروع کر دیا گیا ہے۔ مظاہرین نے واضح کیا ہے کہ مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رہے گا۔
ضلع کرم میں پشاور پاراچنار مین شاہراہ اور پاک افغان سرحد سمیت آمدورفت کے تمام راستے ڈھائی ماہ سے زائد عرصہ سے بند ہیں، بازار اور دکانیں بھی بند پڑی ہیں؛ ضلع کی عوام غذائی قلت، اور ادویات و علاج معالجے کی سہولیات کے فقدان باعث مشکلات سے دوچار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان نے گھروں میں کھڑکیوں پر بھی پابندی لگا دی
مقامی رجسٹرڈ تنظیم سول سوسائٹی نے علاج و سہولیات نہ ملنے کے باعث 128 بچوں سمیت 200 افراد کے جاں بحق ہونے کا دعویٰ کیا ہے، بچوں کے بعد جاں بحق افراد میں کینسر کے مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد زیادہ بتائی جا رہی ہے جو ویکسین نہ ملنے سے دم توڑ چکے ہیں۔
تاہم تحریک انصاگف کی صوبائی حکومت ان دعوؤںکی تردید کرتی آ رہی ہے۔ مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کے مطابق یہ دعوے بے بنیاد، من گھڑت اور گمراہ کن ہیں (کیونکہ) ادویات، و دیگر ضروریات زندگی ترجیحی و یومیہ بنیادوں پر کرم پہنچائی جا رہی ہیں۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اپنا سرکاری ہیلی کاپٹر اس مقصد کیلئے و قف کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ مریجوں اور شہریوں کو بھی منتقل کیا جا چکا، اور یہ پورا عمل اب بھی جاری ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق آمدورفت کے راستے مسافر گاڑیوں پر فائرنگ اور جھڑپوں کے بعد سیکیورٹی خدشات کے باعث بند کیے گئے ہیں اور مذاکراتی عمل کے ذریعے مسئلے کے حل کی کوشش کی جا رہی ہے۔
فریقین کے درمیان جرگہ جاری ہے، حتمی فیصلہ ہونے کے بعد راستے کھول جائیں گے۔ اک دو روز قبل مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف نے بتایا تھا کہ جرگے میں ایک فریق نے معاہدے کے چند نکات پر مشاورت کے لیے 2 دن کا وقت مانگا ہے، منگل کو دستخط ہو جائیں گے۔
اِدھر کوہاٹ میں ملتوی ہونے والا گرینڈ امن جرگہ ضلعی انتظامیہ نے کل 11 بجے طلب کیا ہے جس میں امید ہے کہ دوسرے فریق کی جانب سے بھی امن معاہدے پر دستخط کر دیے جائیں گے۔
ممکنہ معاہدے کے مجوزہ نکات
جرگے کے تحت ممکنہ معاہدے کے مجوزہ نکات میں چند چیدہ چیدہ یوں ہیں: ہر ایک کلومیٹر پر فوجی دستے تعینات ہوں گے اور بھاری اسلحہ قومی مشیران کے پاس رہے گا۔
معاہدے کے تحت دھرنا فوری طور پر ختم کیا جائے گا اور مرکزی سڑک جلد کھول دی جائے گی، کوئی بھی شخص سڑک پر رکاوٹ پیدا نہیں کرے گا۔
دوسری جانب ملک کے کئی شہروں کے ساتھ ساتھ کراچی میں بھی پاراچنار کے محصورین کے حق میں نمائش چورنگی, گلستان جوہر، ملیر نیشنل ہائی وے، عباس ٹاؤن اور عائشہ منزل سمیت سے زائد مقامات پر دھرنے جاری ہیں، راستوں کی بندش کے باعث شہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔
واضح رہے کہ 21 نومبر کو لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے کانوائے پر مسلح افراد نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 8 خواتین اور 5 بچوں سمیت 40 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے جس کے بعد پرتشدد مظاہروں، مسلح جھڑپوں، اور پھر راستوں کی بندش کے باعث مبینہ طور پر اموات میں اضافہ ہوتا چلا آ رہا ہے۔