خیبر پختونخواعوام کی آواز

کرم: مذاکراتی عمل مکمل؛ تحریری امن معاہدے کے لیے راہ ہموار ہو گئی

آج کوہاٹ میں حتمی فیصلے کے لیے گرینڈ امن جرگہ منعقد کیا جائے گا۔ ذرائع

ضلع کرم میں قیام امن کے لیے گرینڈ امن جرگہ نے فریقین سے مذاکرات مکمل کر لئے۔

ذرائع کے مطابق تحریری امن معاہدے کے لیے راہ ہموار ہو گئی ہے اور آج کوہاٹ میں حتمی فیصلے کے لیے گرینڈ امن جرگہ منعقد کیا جائے گا۔

دوسری جانب دویات اور خوارک کے خاتمے، مبینہ طور پر علاج و معالجے کی سہولیات نہ ملنے سے بچوں اور مریضوں کی اموات اور آمدورفت میں رکاوٹوں کے خلاف پاراچنار میں 7 دن سے احتجاج جاری ہے، اور اِس شدید سردی میں بچے، بڑے اور بزرگ دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔

ٹل پاراچنار مرکزی شاہراہ کو بند ہوئے 78 دن گزر گئے ہیں، راستوں کی بندش سے 100 سے زائد دیہاتوں کے مکین بھی متاثر ہیں۔ گزشتہ روز تحصیل چیئرمین اپر کرم آغا مزمل حسین نے دعوی کیا تھا کہ علاج نہ ہونے سے پاراچنار میں انتقال کر جانے والے بچوں کی تعداد 100 سے متجاوز ہو گئی ہے جبکہ بڑوں کی اموات اس کے علاوہ ہیں۔

پاراچنار کی صورتحال پر اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں بھی احتجاجی دھرنے جاری ہیں، کراچی میں دھرنے کے باعث نمائش چورنگی پر ٹریفک کی آمدورفت متاثر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بنوں: ہیڈکانسٹیبل وزیر زادہ کا قاتل کون؟

دھرنوں کے شرکا نے مطالبہ کیا ہے کہ علاقے میں خوراک اور دواؤں کی قلت ختم کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔

راستے نہ کھلے تو پاکستان بھر کے راستے بھی بند کر دیئے جائیں گے

پاراچنار میں مین کچہری روڈ پر پریس کلب کے سامنے دھرنا کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے تحصیل چیئرمین آغا مزمل کا کہنا تھا کہ پاڑہ چنار محصور ہے، ہم نہ تو پاکستان جا سکتے ہیں اور نہ افغانستان۔ کسی کو بھی اس بات کا احساس نہیں ہو رہا کہ لاکھوں زندگیوں کو اس وقت شدید مُشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر کوئی کسی مجبوری کے تحت سفر کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو مارا جاتا ہے۔ ہم نے ابھی تک احتجاجاً اپنے دوافراد کی تدفین نہیں کی۔ یہ لوگ سفر کرتے ہوئے مارے گئے تھے۔

آغا مزمل کا کہنا تھا کہ ہمارا احتجاج معاملے کے حل تک جاری رہے گا: "حکومت کی جانب سے ایک گرینڈ جرگہ آیا ہوا ہے؛ اس سے بات چیت چل رہی ہے، ان سے بھی ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ ہر صورت میں راستوں کو کھولا جائے اور انھیں آمدورفت کے لیے محفوظ بنایا جائے۔ اگر پاراچنار کے راستے نہیں کھلیں گے تو پھر ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے اور پورے ملک میں احتجاج ہو گا۔ ہم نے حکومت کو بتا دیا ہے کہ آئندہ 72 گھنٹوں میں اگر پاڑاچنار کے راستے نہیں کھلیں گے تو پھر ملک بھر کے ہائی ویز، موٹر ویز، ایئرپورٹ، ٹرین ٹریک سب کچھ بند کر دیا جائے گا۔”

آغا مزمل نے کہا کہ اس وقت ملک کے مختلف علاقوں میں پاراچنار کے لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پر امن احتجاج ہو رہے ہیں: ہمارا پیغام بڑا واضح ہے کہ اگر پاراچنار کے راستے نہیں کھلیں گے تو پھر پاکستان بھر کے راستے بھی بند کر دیئے جائیں گے۔”

انٹری ٹیسٹ موخر؛ پشاور ہائیکورٹ نے مختصر حکمنامہ جاری کر دیا

گزشتہ کئی ہفتوں سے کرم میں امن و امان کی ابتر صورتحال کی وجہ سے پشاور ہائیکورٹ نے ضلع میں ہائیر ایجوکیشن کی جانب سے منعقد ہونے والے انٹری ٹیسٹ کو موخر کر دیا۔ عدالت عالیہ نے اس حوالے سے مختصر حکم نامہ جاری کر دیا۔

قبائلی ضلع کرم میں 21 نومبر سے امن وامن کی صورتحال مخدوش ہے جس کی وجہ سے مین ٹل پاڑاچنار شاہراہ بند اور لوگوں کی امدورافت معطل ہے۔ اسی باعث ہائیر ایجوکیشن کی جانب سے آج مختلف مقامات پر سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ سے سکالرشپ کیلئے امتحان لیا جانا تھا تاہم کرم سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے عدالت میں اس کے خلاف درخواست دائر کرتے ہوئے کرم کی حد تک انٹری ٹسٹ روکنے کی استدعا کی تھی جو عدالت نے منظور کی اور انٹری ٹیسٹ کا انعقاد روک دیا۔ عدالت عالیہ نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے حکام کو طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 31 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

کیس کی سماعت پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس وقاراحمد پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔ دوران سماعت درخواست گزاروں کے وکیل عنایت اللہ ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ کرم میں امن وامان کی صورتحال کافی خراب ہے اور آج، 26 دسمبر کو، ایچ ای سی سکالرشپ کیلئے انٹری ٹیسٹ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ 100 سکالرشپس فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کیلئے ہیں تاہم کرم میں حالات کشیدہ ہیں لہذا امتحانی ہال کو صدہ منتقل کیا جائے اور یہ امتحان روکا جائے۔ عدالت نے مختصر حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کرم کی حد تک امتحان موخر کر دیا۔ عدالت نے ایٹا کو فریق بنا کر نوٹس جاری کرتے ہوئے اگلی سماعت پر جواب جمع کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ذمہ دار افسران کو بھی اگلی سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا اور سماعت 31 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

کرم کی موجودہ صورتحال

رپورٹس کے مطابق ضلع کرم میں شاہراہیں بند ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا پر پاراچنار میں مبینہ طور پر ادوایات نہ ملنے کی وجہ سے سو سے زائد بچوں کے جاں بحق ہونے کی خبریں گردش کر رہی تھیں۔ تاہم گزشتہ روز خیبر پختونخوا کابینہ میں مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر سیف نے ان خبروں کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا اور کہا کہ وزیر اعلی کی ہدایت کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر پاراچنار کو جان بچانے والی ادوایات، اور دیگر تمام بنیادی ضروریات بذریعے ہیلی کاپٹر پہنچائی ج رہی ہیں۔

کرم کے حالات کب اور کیسے حراب ہوئے؟

مشہور کہاوت ہے کہ کرم کے موسم اور حالات پر کبھی اعتبار نہیں کرنا چاہئے۔ ایسا ہی 12 اکتوبر کو ہوا جب تری منگل سے پشاور جانے والے کانوائے پر اپر کرم کے علاقے کنج علی زئی میں حملہ کیا گیا۔ کانوائے کی سیکورٹی پر مامور فورسز کی جوابی کارروائی سے چار دہشتگرد بھی مارے گئے۔ اس حملے میں پندرہ سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ واقعہ کے بعد پورے ضلع میں حالات خراب ہوئے۔

کرم میں حالات مزید تب خراب ہوئے جب 21 نومبر کو لوئر کرم کے علاقے اوچت کے مقام پر نامعلوم مسلح افراد نے پشاور سے پاراچنار جانے والے کانوائے پر حملہ کیا جس میں چالیس سے زائد لوگ مارے گئے۔ ردعمل میں اپر کرم سے تعلق رکھنے والے مسلح مشتعل مظاہرین نے لوئر کرم کے علاقے بگن پر حملہ کیا اور 350 پچاس سے زائد دکانیں اور دو سو سے اوپر گھروں کو نہ صرف لوٹا بلکہ نژرآتش بھی کر دیا۔ اس حملے میں بگن سے تعلق رکھنے والے تیس سے زائد افراد جاں بحق بھی ہوئے تھے جن میں مشہور سابقہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ افیسر ڈاکٹر طلحہ محمد بھی شامل تھے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button