کرم: سو سے زائد بچے مبینہ طور پر علاج نہ ملنے سے جاں بحق
ڈھائی ماہ سے راستوں کی بندش کے خلاف شہریوں کا پاراچنار پریس کلب کے باہر دھرنا چھٹے روز بھی جاری
کرم: پاراچنار میں مبینہ طور پر بروقت علاج نہ ملنے سے جاں بحق بچوں کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی۔
پاراچنار پریس کلب کے باہر چھ روز سے جاری دھرنا کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے تحصیل چیئرمین، اپر کرم، آغا مزمل حسین نے دعوی کیا کہ راستوں کی بندش کے باعث شہری خوراک و علاج سے محروم، اور علاج معالجے کی سہولیات کے فقدان کے باعث 100 سے زائد بچے دم توڑ چکے ہیں۔
انہوں نے دھمکی دی کہ راستے فوریئ طور نہ کھولے گئے تو وہ احتجاجاً دیگر بلدیاتی نمائندوں کے ہمراہ مستعفی ہو جائیں گے۔
تاہم وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر سیف کا ان دعوؤں کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ضروری ادویات روزانہ کی بنیاد پر ضلع کرم پہنچائی جا رہی ہیں اور تمام بنیادی ضروریات کو ترجیحی بنیادوں پر پورا کیا جا رہا ہے۔
میڈیا کو جاری ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر چند شرپسند عناصر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں: ”خیبر پختونخوا حکومت عوام کے تحفظ اور دائمی امن کے قیام کو اولین ترجیح دیتی ہے۔ عوام سے اپیل ہے کہ ایسی من گھڑت اور بے بنیاد خبروں پر یقین نہ کریں۔”
دوسری جانب ڈی سی کرم کا کہنا تھا کہ علاقے میں قیام امن کیلئے گرینڈ امن جرگہ ضلع کرم پہنچ گیا ہے، اور آج سے مذاکراتی عمل کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تمباکو صنعت کے پالیسی سازی پر اثرات: عالمی اور مقامی نقطہ نظر
راستوں کی بندش کے حوالے سے مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف نے کہا کہ پاراچنار روڈ کے لیے سپیشل پولیس فورس کے قیام کی منظوری دی گئی ہے، حکومتی اقدامات کا مقصد علاقے میں سو سالہ پرانے تنازعہ کا پائیدار اور مستقل حل ہے۔
یاد رہے پاراچنار میں گزشتہ ڈھائی ماہ سے قبائل کے درمیان تصادم جاری ہے جس میں 150 سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ کشیدہ حالات کے باعث گزشتہ ڈھائی ماہ سے پاک افغان سرحد سمیت ضلع کے تمام چھوٹے بڑے راستے بند ہیں۔