کُرم کے صحافی جنان حسین؛ 2009 میں ایک ٹانگ، 2024 میں جان سے محروم ہو گئے
پشاور سے پاراچنار جانے والے کانوائے پر مسلح افراد کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے صحافی جنان حسین کو اشکبار آنکھوں، اور آہوں و سسکیوں کے ساتھ آبائی قبرستان میں سپردِخاک کر دیا گیا۔
پشاور سے پاراچنار جانے والے کانوائے پر مسلح افراد کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے صحافی جنان حسین کو شنگگ میں اشکبار آنکھوں، اور آہوں و سسکیوں کے ساتھ آبائی قبرستان میں سپردِخاک کر دیا گیا۔
جنان حسین کی نماز جنازہ اور تدفین میں ان کے دوستوں، رشتہ داروں اور صحافیوں نے بھی شرکت کی، جبکہ پریس کلب پاراچنار میں تعزیت کا سلسلہ جاری ہے، اور سیاسی سماجی تنظیموں سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد تعزيت کیلئے آ رہے ہیں۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے دورہ پاراچنار کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ صحافی جنان حسین کے ورثا کو مالی امداد دی جائے گی، اور پالیسی کے مطابق شہدا پیکج بھی دیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کُرم پرتشدد مظاہرے: صحافی ریحان محمد کا گھر و حجرہ نذرآتش
اِس سانحہ میں صحافی جنان حسین کے علاوہ اب تک آٹھ خواتین اور پانج بچوں سمیت 45 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جبکہ سانحہ کے بعد مقتولین کی تدفین کے ساتھ شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں اب تک 30 افراد جاں بحق، اور 50 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ صحافی ریحان محمد کے مکان اور حجرے سمیت جتنی تعمیرات و املاک کو نذر آتش کیا گیا اس کا نقصان کا تخمینہ تاحال میسر نہیں۔
اِدھر پشاور پریس کلب اور خیبر یونین آف جرنلسٹس سمیت صحافی برادری نے متعلقہ حکام سے ضلع کرم کے صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے اور علاقے میں مستقل قیامِ امن کا مطالبہ، جبکہ باہم لڑائی میں مصروف قبائل سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔
28 سالہ صحافی جنان حسین ایک نجی نیوز چینل کیلئے ننمائندگی کے ساتھ ساتھ پریس کلب کے جنرل سیکرٹری کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔ جمعرات کو ملائشیا کے دورے سے واپسی پر پشاور سے پاراچنار جا رہے تھے جب مندوری چارخیل کے مقام پر ان کو نشانہ بنایا گیا۔
جنان حسین سال 2009 میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں ایک ٹانگ سے معذور ہوئے تھے، لیکن یہ معذوری ان کی راہ میں حائل نہ ہو سکی۔ انگلش میں بی ایس کرنے کے بعد جنان صحافت کے ساتھ ساتھ ایک میڈیکل کمپنی میں ملازمت کر کے فیملی کو سپورٹ کر رہے تھے۔