خیبر پختونخواعوام کی آواز

ترناب فارم: زیتون کے درخت سوکھ گئے، تیل کی پیداوار میں 25 ہزار لیٹر کی کمی

رفاقت اللہ رزڑوال

خیبر پختونخوا کے زرعی تحقیقاتی مرکز ترناب فارم پشاور کے زیر سایہ 2001 میں بوئے گئے زیتون کے تقریباً ساڑھے 5 ہزار سے زائد پھلدار پودے عدم توجہی کے باعث سوکھ چکے ہیں۔ جس سے تیل کی پیداوار میں ہزاروں لیٹر کے حساب سے کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے برعکس کاشتکاروں کے لگائے گئے درختوں کی پیداوار تاحال جاری ہے۔

مگر حکام کا دعویٰ ہے کہ رواں ہفتے کے دوران سوکھے درختوں میں مختلف اقسام کی پیوندکاری سے نئے قسم کے کونپلیں پھوٹ آئیں گی۔

پشاور کے زرعی تحقیقاتی ادارے ترناب فارم نے 2001 میں سنگ بھٹی کے مقام پر 160 کنال پر محیط اراضی میں زیتون کے تقریباً 4 ہزار درخت اُگائے تھے، جنہوں نے 2005 میں پھل بھی دینا شروع کر دیئے تھے اور پھل دینے کا یہ سلسلہ 2018 تک جاری رہا مگر اس کے بعد توجہ نہ دینے کے باعث درختوں نے پھل دینا بند کر دیا۔

اسی طرح نوشہرہ کے علاقے پیر سباق میں بھی 1800 سو درختوں کا یہی حال ہے جہاں مختلف قسم کے کیڑے درختوں کے تنوں کے ساتھ چپکے نظر آتے ہیں۔

ترناب فارم کے سیرل کراپ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سینئر تحقیقاتی افسر ڈاکٹر حامد مانتے ہیں کہ درخت ادویات کی عدم موجودگی اور خیال نہ رکھنے کے وجہ سے سوکھ گئے ہیں: "یہ زیتون ایک پراجیکٹ کے تحت لگائے گئے تھے لیکن جب پراجیکٹ مکمل ہوا تو اُس کے بعد فنڈز کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان کا اُس طرح سے خیال نہیں رکھا گیا جس طرح خیال رکھنا ضروری تھا۔ بہرحال ان میں اب گرافٹنگ (پیوندکاری) شروع کریں گے جس کی وجہ سے ان میں نئی کونپلیں پھوٹ آئیں گی اور کچھ سال بعد یہ پھل دینا بھی شروع کر دیں گے۔”

ماہرین کا کہنا ہے کہ سوکھے درختوں کی وجہ سے 25 ہزار لیٹر تک تیل اور 10 ٹن پھل کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ ایک لیٹر تیل کی قیمت 3 سے ساڑھے 3 ہزار روپے کلو ہے۔

ترناب فارم کے مقابلے میں خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں کے کاشتکاروں نے اسی سال زیتون کے درخت لگائے تھے جن کی پیداوار میں سالہا سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ضلع نوشہرہ کے علاقے معراجی سے تعلق رکھنے والے سردار حسین نے 20 سال قبل اپنے کھیتوں میں پانچ سے چھ سو تک درخت اگائے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اُن کی پیداوار میں تین گنا اضافہ ہوا ہے: "اس سال اٹلی کے ایک غیر سرکاری تنظیم نے ترناب فارم کے ذریعے ہمیں اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانے کیلئے مختلف قسم کی ہدایات دی تھیں، میں نے ڈی اے پی اور کھاد کے ساتھ ساتھ کیڑے مار ادویات کا بھی استعمال کیا، باغ کا خیال رکھا، اب اللہ کے فضل سے میری پیداوار میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ پہلے تیل کی پیداوار 60 سے 70 لیٹر تھی جو امسال امید ہے کہ 400 لیٹر تک پہنچ جائے گی جس سے دس لاکھ روپے سے زائد آمدن ہو گی۔”

تاہم ترناب فارم کے حکام کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے تمام علاقوں کے ماحول کے مطابق زیتون کے سوکھے درختوں میں پیوندکاری کا عمل شروع کیا جائے گا جس سے اُن علاقوں کے کاشتکاروں کو ذخیرے دیئے جائیں گے۔ جن میں سے کچھ تیل کی پیداوار، کچھ اچار اور مربہ بنانے کے کام آئیں گے۔

ترناب فارم کے تحقیقاتی مرکز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ضیاء اللہ خان کا کہنا ہے کہ سنگ بھٹی زیتون کی کاشت کیلئے ایک موزوں علاقہ ہے جسے ادارہ مختلف قسم کے ذخیروں کی پیداوار کیلئے استعمال کرتا ہے: "اس علاقے میں کاشت ہونے والے درختوں سے تیل اور اچار کی پیداوار کی گنجائش زیادہ ہے اور اسی بنیاد پر ہم پوری سنجیدگی سے ان درختوں کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”

ضیاء اللہ کے مطابق زیتون کی کاشت قبائیلی اضلاع میں زیادہ ہو رہی ہے اور اسی پراجیکٹ کے تحت ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے کاشتکاروں کے پہاڑوں پر اگائے گئے درختوں میں پیوندکاری کے لئے سرٹیفائیڈ ذخیرے دیئے جائیں گے۔

تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ ایک ایکڑ زمین پر زیتون کے درختوں کی پیداوار سے تقریباً ساڑھے 7 سو لیٹر تیل کی پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں زیتون کے تیل کی کُل پیداوار 25 ہزار لیٹر ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر سوکھے درخت دوبارہ بحال کئے گئے تو صوبے کی زیتون کے تیل کی ضرورت پوری ہو جائے گی اور اسے باہر سے منگوانا نہیں پڑے گا۔

Show More

Rifaqat ullah Razarwal

رفاقت اللہ رزڑوال چارسدہ کے رہائشی اور ٹرائیبل نیوز نیٹ کے ساتھ پشاور سے بطور رپورٹر کام کر رہے ہیں۔ وہ انسانی حقوق، ماحولیات اور امن و امان کے موضوعات پر ویب اور ریڈیو کیلئے رپورٹس بنا رہے ہیں۔ صحافت کے شعبے سے 2014 سے وابستہ ہے اور انہوں نے 2018 میں پشاور یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button