خیبر پختونخواعوام کی آواز

خیبرپختونخوا میں الیکشن سے قبل سیاسی جماعتوں کے منشوروں میں معذور افراد کے ساتھ کئے گئے وعدے وفا نہ ہو سکے

رفاقت اللہ رزڑوال

خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کی رہائشی 63 سالہ الفت بی بی اپنے معذور اکلوتے بیٹے سمیت دو بیٹیوں کے سرہانے بیٹھ کر خدمت کر رہی ہے۔ الفت بی بی کی آٹھ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ان میں سے تین بیٹوں سمیت دو بیٹیاں پاؤں سے معذور ہیں جبکہ تینوں ٹھیک طرح سے بول بھی نہیں سکتے ہیں۔

الفت بی بی چارسدہ کے نواحی علاقے پڑانگ مرزاگان میں ڈھائی مرلے کے گھر پر اپنے بچوں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے جس کا 65 سالہ شوہر منڈیوں میں شربت فروخت کرتا ہے۔ الف بی بی کی دونوں بیٹیاں ہاتھ پیروں سے معذور توحیدہ کی عمر 40/41 سال، تانیہ کی 34 اور بیٹے نواب خان کی عمر 32 سال ہے۔

تانیہ اس وقت نہ صرف اپنی معذوری کے مشکل دور سے گزر رہی ہے بلکہ وہ موسمی بیماریوں کا بھی شکار ہے اور درد کے مارے چیخ رہی تھی اور اپنی ماں سے ہسپتال لے جانے کا مطالبہ کر رہی تھی مگر ماں کا کہنا تھا کہ ان کے گھر پر کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جو اس کو ہسپتال لے جائیں کیونکہ اُن کا شوہر خود بیمار اور بوڑھا ہے جبکہ ایک بیٹا بھی معذور ہے۔

"میں نے صبح قریبی میڈیکل سٹور سے ادویات لائی ہیں مگر اس سے اُن کا گزارا نہیں ہوا اور اب یہ رُل رہی ہے مگر کیا کریں کس کو فریاد کریں”۔ الفت بی بی کہتی ہے "کتنا اچھا ہوتا کہ حکومت کے پاس ایسا نظام ہوتا جو گھر کی دہلیز پر ان معذوروں کو ادویات اور علاج فراہم کرتی”۔

"ایک دفعہ میں اسے خود ہسپتال لے گئی تھی مگر وہاں پہنچانے پر نہ تو عام لوگ میری بیٹی کو رستہ دے رہے تھے اور نہ ڈاکٹر اُن کے پاس آ رہا تھا، پھر جب مریض ختم ہوگئے تو آخر میں ڈاکٹر نے آکر اس کا چیک اپ کیا”۔ اُن کا کہنا ہے کہ میری اس 40 سالہ معذور بیٹی توحید کا شناختی کارڈ موجود نہیں ہے، دفاتر کے چکر لگانے یا انہیں وہیل چیئر کے ذریعے لے جانے کی ہمت نہیں ہے۔

الفت بی بی کہتی ہے "آپ جو یہ مشکلات دیکھ رہے ہیں، ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہے کہ یہاں پر ہم دوسرے عام افراد سے کمتر لوگ سمجھے جاتے ہیں”۔

اعداد و شمار کے سرکاری ادارے کے مطابق ملک بھر میں اس وقت معذور افراد کی تعداد تقریباً 32 لاکھ 86 ہزار 630 بتائی جاتی ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں 3 لاکھ 75 ہزار 752 ہیں۔

الفت بی بی کا کہنا ہے "میری بیٹیاں اور بیٹا بھی اس معاشرے کا حصہ ہے، میرے خیال میں ان کا بھی اتنا خیال رکھنا چاہیئے جتنا ایک عام شہری کا رکھا جاتا ہے، یہ غیر منصفانہ رویے ہمیں احساس محرومی کا شکار بنا دیتے ہیں۔ اگر ہم جیسے لوگوں کا خیال نہیں رکھا جاتا تو میں مجبوراً اپنی بیٹیوں کے ہمراہ بھیک مانگوں گی”۔

ضلع چارسدہ کے محکمہ ویلفیئر کے مطابق ضلع بھر میں مختلف نوعیت کے 16 ہزار تک معذور افراد رجسٹرڈ ہیں مگر معذور افراد کے حقوق کیلئے کام کرنے والے سماجی کارکن نصرت حسین طوفان کا کہنا ہے کہ ‘حکومت معذور افراد کو شہری ہی تصور نہیں کرتی’۔

نصرت حسین کہتے ہیں کہ محکمہ سوشل ویلفیئر کے پاس موجود ڈیٹا زمینی حقائق کے برعکس ہے کیونکہ چارسدہ میں ایسے کئی گھرانے موجود ہیں جن کے گھروں میں آدھے سے زیادہ بچے معذوری کے مشکل دور سے گزر رہے ہیں مگر متعلقہ محکمے کے پاس اُن کا ریکارڈ بھی موجود نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے 2016 میں پرووینشل کونسل فار ری ہیبیلیٹیشن آف ڈیس ایبل پرسن (پی سی آر ڈی پی) کے تحت معذور افراد کیلئے ماہانہ فنڈ کا اجراء کیا تھا مگر وہ بھی چل نہ سکا۔

"اب آپ دیکھیں نا چارسدہ سے صوبائی اسمبلی کے سارے ارکان حکومت کے ہیں، اگرچہ انہوں ںے الیکشن میں عوام کیلئے بڑے بڑے دعوے کئے تھے مگر کسی بھی امیدوار نے معذور افراد یا اقلیتی برادری کی حقوق کیلئے بات نہیں کی تھی”۔

انہوں نے بتایا کہ دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت پاکستان تحریک انصاف کے منشور میں معذور افراد کو کاروبار کیلئے سرمایہ دینے، تربیت ہنر کی فراہمی، انہیں ہئرنگ ایڈز اور وہیل چیئر کی فراہمی ہے مگر اب تک حکومت متعلقہ محکموں کے ذریعے معذور افراد کو یہی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔

"جب میں پنجاب کو دیکھتا ہوں تو وہاں پر وزیراعلیٰ نے گزشتہ ماہ معذور افراد کیلئے ہمت کارڈ کا اجراء کیا تھا۔ جس کے تحت ہر تین ماہ بعد اہل افراد کو ساڑھے 10 ہزار روپے ملیں گے، اسی طرح سندھ حکومت نے معذور افراد کیلئے خصوصی پارکس قائم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اسی طرح اور بھی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن حکومتوں کی ترجیحات کیا ہے”۔

نصرت حیسن نے مزید بتایا "اضلاعی سطح پر معذور افراد کیلئے قائم کردہ حکومتی ادارے بھی صرف ایک ڈاکئے کا کام کرتی ہے باقی اُن کے پاس بھی وسائل موجود نہیں ہے تاکہ وہ معذور افراد کی زندگی میں بہتری لاسکیں”۔

ضلع چارسدہ کے سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ کے حکام کا کہنا ہے کہ معذور افراد کیلئے صوبائی حکومت کے احکامات کے مطابق آن لائن رجسٹریشن کی جاتی ہے جس کے تحت وہ نوکریوں میں 2 فیصد کوٹہ، ٹرین یا ہوائی سفر کی کرایوں میں 50 فیصد تک رعایت حاصل کرسکتے ہیں۔

محکمہ سوشل ویلفئیر کے ضلعی افسر سید محمد یونس کہتے ہیں کہ آن لائن رجسٹریشن سے معذور افراد کی مشکلات میں کمی آئی ہے۔ معذور افراد کی معذوری کی تصدیق متعلقہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی سربراہی میں ہو رہی ہے اور سرٹیفکیٹ کے اجراء کے بعد نادرا انہیں شناختی کارڈ میں ایک خاص مونو گرام فراہم کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پی سی آر ڈی پی فنڈ سے معذور افراد کی ماہانہ امداد کی جاتی تھی مگر اب وہ بھی بند ہے، حکومت نے اس حوالے سے اب مزید ڈیٹا مانگا ہے مگر تاحال کوئی عمل درآمد نظر نہیں آ رہا ہے۔ ” میرا اپنا خیال یہ ہے کہ حکومت ایسا کوئی نظام بنائیں کہ معذور افراد کیلئے ماہانہ وظیفہ مقرر کرے تو وہ کسی پر بوجھ نہیں بنیں گے یا انہیں روزگار دینے کا کوئی فنڈ مقرر کیا جائے تو بہتر ہوگا”۔

خیبرپختونخوا میں گزشتہ 12 سالوں سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت ہے اور دیگر پارٹیوں کی نسبت پی ٹی آئی کے منشور میں معذور افراد کی بحالی اور انہیں سہولیات کی فراہمی کیلئے بڑے بڑے دعوے موجود ہیں۔منشور میں معذور افراد کیلئے گھر، ملازمتوں میں 2 فیصد کوٹہ کی فراہمی اور شدید معذور افراد کو ماہانہ امداد کا وعدہ کیا گیا ہے مگر صوبائی حکومت تاحال اپنی منشور پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہی ہے۔

ضلع چارسدہ سے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی افتخاراللہ کا کہنا ہے کہ معذور افراد ہمارے معاشرے کا اہم حصہ ہے جس کی افرادی قوت بروئے کار لانے کیلئے حکومت اقدامات اُٹھا رہی ہے۔ انہوں ںے بتایا کہ عمومی طور پر الیکشن کے دوران معذور افراد پر بات نہیں کی جاسکتی مگر منشور میں دئے گئے تمام وعدے قابل احتساب ہوتے ہیں۔

"اب آپ نے مجھ سے منشور کے بارے میں پوچھا تو یہی میرا احتساب ہے اور اگلی اسمبلی کے سیشن میں، میں معذوروں کو سہولیات دینے اور پی سی آر ڈی پی پر ضرور بات کرونگا اور حکومت سے مطالبہ کروں گا کہ اگر 100 فیصد نہیں کم از کم 50 فیصد پر عمل درآمد ضرور کرے”۔

Show More

Rifaqat ullah Razarwal

رفاقت اللہ رزڑوال چارسدہ کے رہائشی اور ٹرائیبل نیوز نیٹ کے ساتھ پشاور سے بطور رپورٹر کام کر رہے ہیں۔ وہ انسانی حقوق، ماحولیات اور امن و امان کے موضوعات پر ویب اور ریڈیو کیلئے رپورٹس بنا رہے ہیں۔ صحافت کے شعبے سے 2014 سے وابستہ ہے اور انہوں نے 2018 میں پشاور یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button