ٹنل ٹیکنالوجی، سبزیوں کی پیداوار اور معاشی مسائل کے حل کی جانب ایک احسن قدم
رفاقت اللہ رزڑوال
"میں نے اپنے گھر میں زمین کے چھوٹے سے رقبے پر ٹنل ٹیکنالوجی کے ذریعے کھیرے کی سینکڑوں کلوگرام پیدوار حاصل کر کے بازار میں فروخت کئے ہیں، جس سے میرے گھر کے تمام اخراجات پورے ہوئے اور اب اگلی دفعہ ٹماٹر اُگانے کیلئے زمین کی تیاری میں مصروف ہوں”۔
یہ کہنا ہے کہ پشاور کی رہائشی خاتون مسرت بی بی کا، جنہوں نے خیبرپختونخوا میں کام کرنے والی جرمنی کے غیر سرکاری ادارے ہیلویتاس کے زیر نگرانی ٹنل ٹیکنالوجی کی تربیت حاصل کی اور گھر میں غیر موسمی سبزیوں کی کاشت شروع کی ہے۔
مسرت کا شوہر دو سال پہلے بیمار پڑ گیا اور بچوں کی کفالت کیلئے کوئی آسرا موجود نہیں تھا۔ اپنی معاشی حالات بہتر بنانے کیلئے روزگار کی تلاش شروع کی، مگر روزگار تو نہ مل سکا لیکن گاؤں میں ہیلویتاس کے تحت تربیت حاصل کی، جس کا مقصد دیہاتی کاشتکاروں کا معاش بہتر بنانے کیلئے ٹنل ٹیکنالوجی کے ذریعے زرعی پیداوار بڑھانا ہے۔
تربیت کی حصول کے بعد اُن کو کھیرے کے تخم اور ٹنل ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والے وسائل فراہم کئے گئے۔
مسرت کہتی ہے کہ امسال انہوں نے تین مرلے زمین پر کھیرے کی اُگائی کر کے 3 ہزار کلوگرام سے زائد پیداوار حاصل کی ہے، جس سے اُن کے اخراجات پورے ہوئے۔
” ٹنل ٹیکنالوجی سے سبزیوں کی پیداوار نے میرے معاشی مسائل حل کردیئے، بچوں کی سکولوں کی فیسیں اور کھانے پینے کی اشیاء کے اخراجات ادا کرنا مشکل ہونے لگے تو ہمت کر کے کاشتکاری شروع کر دی۔ پہلی دفعہ اس سے حاصل ہونے والی پیداوار ایف آر ڈی کی مدد سے بازار میں فروخت کر دی تھی۔ اب دوکاندار خود سبزی لینے کے لئے ایڈوانس مطالبات کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹنل ٹیکنالوجی کے ذریعے غیرموسمی سبزیاں پیدا ہوتی ہے”۔
مسرت بیبی نے مزید بتایا کہ اس سے پہلے میں نے ٹنل ٹماٹر کی کاشت کی تھی۔ جس کا فائدہ یہ ہے کہ ایک تو ٹماٹر اکھاڑنے سے پودے کو نقصان نہیں پہنچتا اور دوسرا یہ کہ آپ کو صاف ستھری سبزی ملتی ہے لیکن روایتی طریقے سے اگائی گئی سبزی اکھاڑنے سے پودا خراب ہو جاتا ہے۔
ہیلویتاس کے تحت ٹنل ٹیکنالوجی کے منصوبے پر خیبرپختونخوا کے ضلع پشاور میں کام جاری ہے، جہاں پر انہوں نے 305 ٹنلز لگائیں ہیں اور ایک ٹنل کی کم از کم رقبہ ڈیڑھ مرلے کا ہے۔ تحقیق کاروں کے مطابق ٹنل ٹیکنالوجی سے ٹماٹر، کھیرا، خربوزہ، تربوز، سبز مرچ، شملہ مرچ، کدو اور توری کی پیدوار ممکن ہے۔
تحقیق کاروں کا دعویٰ ہے کہ تقریباً ڈیڑھ مرلہ زمین پر کھیرے کی پیداوار تقریباً 1580 کلوگرام ہے جبکہ روایتی طریقوں سے کاشت کئے گئے کھیرے کی پیداوار 400 سے 500 کلوگرام تک ہوتی ہے۔
ہیلویتاس کے پروجیکٹ منیجر منور خان خٹک کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے ٹنل ٹیکنالوجی کے ذریعے سبزیوں کی پیداوار کیلئے مختص زمین پر کیاریاں تیار کی جاتی ہے۔ جس کے دونوں اطراف پر بھانس یا سفیدے کی لکڑیاں گاڑی جاتی ہے اور سبزی کا بویا ہوا پودا اُسی کی سہارے ورٹیکل انداز میں اوپر جاتا ہے۔
منور خٹک نے بتایا کہ اس پر بارشوں، ژالہ باری اور طوفان وغیرہ کا اثر بہت کم ہوتا ہے کیونکہ یہ پودے لکڑیوں کے سہارے کھڑے ہوتے ہیں، آب پاشی کیلئے ڈریپ نظام کے ذریعے پانی دیا جاتا ہے، جس سے پانی کا استعمال 50 فیصد کم ہوتا اور محنت بھی محدود ہوتی ہے۔
خیبر پختونخوا کے بیشتر اضلاع کی زمینیں خوراکی اجناس کی کاشت کیلئے زرخیز اور موزوں سمجھی جاتی ہیں، جہاں پر گنا، گندم، تیلدار فصلیں اور دیگر سبزیات کاشت کی جاتی ہیں۔ ایف آر ڈی کے منصوبے میں سبزیوں کی پیداوار کے لئے موزوں سمجھے جانے والے 10 اضلاع کے 200 کاشتکاروں کو ٹنل ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کرنے کیلئے تربیت دی جا چکی ہے۔
فیلڈ آفیسر مصباح اللہ کا کہنا ہے کہ آج کل موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سبزیوں اور دیگر خوراکی اجناس کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے اور اسی کمی کو پورا کرنے کیلئے ہیلویتاس کے زیرنگرانی فاؤنڈیشن رورل ڈیولپمنٹ (ایف آر ڈی) نے فی ایکڑ پیداوار میں اضافے اور پانی کے استعمال کم کرنے کیلئے نئی ٹٰیکنالوجی، ٹنل کو متعارف کیا ہے تاکہ زمین کے چھوٹے سے رقبے پر زیادہ پیداوار حاصل ہوسکیں۔
مصباح کہتے ہیں "ابھی آپ دیکھیں، کھیرے کا موسم نہیں ہے لیکن اس ٹیکنالوجی کے ذریعے کھیرے کی پیداوار ممکن ہوئی ہے، بالکل اسی طرح ٹماٹر کی بھی پیداوار ہے جس سے مارکیٹ میں سبزیوں کی قلت نہیں پڑتی”
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے خواتین سمیت 200 افراد تربیت فراہم کر چکے ہیں اور وہ کامیابی کے ساتھ اپنی غیر موسمی سبزیاں مارکیٹ کو سپلائی کرتے ہیں۔ تخم ڈالنے سے لیکر سبزی تک میں خود اُس کی نگرانی کرتا ہوں تاکہ اُنہیں نقصان نہ ہو۔
ٹنل ٹیکنالوجی سے نہ صرف سبزیات کی دستیابی کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے بلکہ روزگار اور کاشتکار کی آمدن میں بھی اضافے کے امکانات زیادہ روشن ہوجاتے ہیں۔