آبادی میں بے دریغ اضافہ کن کن مسائل کا سبب بن سکتا ہے ؟
سدرہ حسن
ماہرین شماریات کے مطابق جس شرح سے صوبہ کی آبادی بڑھ رہی ہے یہ صوبے کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ خیبرپختونخوا میں خاندانی منصوبہ بندی کی جانب رجحان کم ہونے کے وجہ سے صوبے کی آبادی میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے، پاکستانی شماریاتی ادارے کے مطابق 1998 میں خیبر پختونخوا کی آبادی 17 ملین تھی، جو 2017 میں 30 ملین ہوگئی، 2023 میں 40 ملین تک آبادی میں اضافہ ہوا۔
خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے پاپولیشن ویلفیئر کے سیکریٹری عماد علی لوہانی نے ٹی این این کو بتایا کے آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے اس وقت صوبے میں 850 ویلفیئر سنٹرز محتلف مقامات پر کام کر رہے ہیں، جو لوگوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے آگاہی فراہم کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کے ہمارے صوبہ میں تقریباً 80 فیصد خاندان ایسے ہے جن کو خاندانی منصوبہ کا بندی کا نہیں پتہ، یا جن کے ذہنوں میں یہ غلط تاثر بنا ہوا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کا مطلب ہوتا ہے کہ بچے پیدا نہ کرنا۔ نہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہیں بلکہ خاندانی منصوبہ بندی کا مطلب یہ ہوتا ہے کے خاندان کی وسعت اس کے وسائل تک محدود رکھنا یعنی افراد کی تعداد اتنی ہونی چاہیے کے خاندان کی وسائل ان کی ضروریات کو پوری کرسکیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کے اولاد کی پیدائش کا سلسلہ بالکل ہی منقطع کر دیا جائے بلکہ جہاں تک وسائل اجازت دیں بچوں کی پیدائش ہونی چاہیئے۔ عماد علی کا کہنا ہے کہ فیملی پلاننگ کے حوالے سے نہ صرف یہ سنٹرز کام کر رہے ہیں بلکہ ہسپتالوں میں بھی فیملی پلاننگ کے حوالے سے سنٹرز موجود ہے جو خواتین کو فیملی پلاننگ کے متعلق معلومات فراہم کرتے ہیں۔
اس حوالے سے ڈی ایچ کیو ہسپتال اپر کرم کی نرس سعدیہ نے اپنی گفتگو میں ٹی این این کو بتایا کہ یہاں پر جو بھی حاملہ خواتین آتی ہیں، ہم ان کی خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے کونسلنگ کرتے ہیں، اور ان کو یہ آگاہی دیتے ہیں کہ ایک بچے کے بعد دوسرے بچے میں تقریباً دو سے تین سال کا وقفہ لازما ہونا چاہیئے تاکہ اگلے حمل تک ماں پوری طرح سے صحت یاب ہو جائے اور اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو بحال کرسکے۔ اس طرح دوران زچگی 20 سے 30 فیصد خواتین کو مرنے سے بچایا جاسکتا ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں بھی 10 فیصد تک کمی لائی جاسکتی ہیں۔
خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق جب ہم نے وزیر آباد کے رہائشی غلام علی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں مجھے کوئی علم نہیں تھا اگر علم ہوتا تو میں ضرور اس پر عمل پیرا ہوتا۔ اس کا کہنا تھا کہ میرے آٹھ بچے ہیں، جن کے درمیان صرف ایک سال کا وقفہ ہے، میں مزدوری کرتا ہوں اب میرے وسائل اتنے نہیں ہے کہ میں اپنے بچوں کو اچھی تعلیم، اچھا ماحول اور صحت مند خوراک دے سکوں۔ میں بمشکل دن میں 800 سو سے 1000 روپے دیہاڑی کا کام کرتا ہوں۔ جن سے مشکل سے گھر اخراجات پورے ہوتے ہیں۔
اس نے مزید کہا کے خاندانی منصوبہ ہونی چاہیئے اس حوالے سے حکومت کو چاہیئے کہ صوبائی سطح پر لوگوں میں آگاہی مہم چلائے تاکہ لوگ اپنے وسائل کے مطابق اپنی خاندانی منصوبہ کرے اور اپنے بچوں کو اچھی تعلیم، اچھے کپڑے، صحتِ مند خوراک اور ایک بہترین ماحول دے سکے۔
جہاں پر آبادی بڑھتی ہیں، وہاں وسائل پر بھی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، صوبے کی آبادی میں تیزی سے اضافہ نہ صرف ماحولیاتی تبدیلی کا باعث بن رہا ہے، بلکہ صحت تعلیم سمیت دیگر شعبوں کو بھی متاثر کر رہا ہے۔
اس حوالے سے ماحولیاتی سائنس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نفیس کا کہنا تھا کہ وسائل تو وہی ہے لیکن آبادی بڑھ رہی ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے سب سے زیادہ دباؤ جنگلات پر پڑ رہا ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان کے جنگلات 4.5 فیصد تھے جو کے اب تین فیصد سے بھی کم ہوگئے ہے اور اس کی بڑی وجہ شہر کاری اور جنگلات کی کٹائی ہیں۔
انکا مزید کہنا تھا کہ اگر شجا کاری کی بات کی جائے تو پاکستان دنیا کا بارہواں ملک ہے جو تیزی سے شجرکاری کی طرف جا رہا ہے لیکن اس کی باوجود ہم اس کی کمی کو پورا نہیں کر پا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگلات کے اوپر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم جنگلات کی کٹائی کو کنٹرول نہیں ک رپا رہے ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی بتایا کے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، آج بھی صوبہ میں 50 فیصد نوجوان ایسے ہیں جو کہ بے روزگار ہے اور 49 ہزار بچے ایسے ہیں جو سکول سے باہر ہیں۔ جو غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے ہے۔ اس حوالے سے لوگوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے وسائل کے مطابق اپنے خاندان کی منصوبہ بندی کرے اور اس کے مطابق بچے پیدا کرے۔
خاندانی منصوبہ بندی نہ صرف آبادی کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتی ہیں بلکہ ایک صحت مند ماں بھر پور طریقے سے اپنے بچوں اور گھر کی دیکھ بھال بھی کرسکتی ہے۔ اور اس سے بچوں کو ماں کی پوری توجہ، تعلیم، اور ترقی کے بہترین مواقع ملتے ہیں۔ اس سے بچے زیادہ صحت مند اور طاقت ور ہونگے اور زندگی کی دوسری آسائشوں سے بھی لطف اندوز ہونگے اور اس کے ساتھ ہی معاشرے میں غربت، بے روزگاری، خوراک، تعلیم اور طبی سہولیات کا فقدان، صاف پانی کی فراہمی اور ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔