گزشتہ سال خیبرپختونخوا سے دو لاکھ کلوگرام زیتون کی پیداوار حاصل ہوئی، ماہرین
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبرپختونخوا میں جدید ریسرچز کے بعد زیتون کی پیداوار میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ماہرین کی خواہش ہے کہ بیرون ممالک سے زیتون کے تیل کی درآمدات میں کمی آسکے اور اُسکے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے صوبے میں پیداوار بڑھائیں تاکہ خزانہ پر بوجھ کی کمی کے ساتھ ساتھ کاشتکاروں کی معاشی حالات بہتر ہوسکیں۔
خیبرپختونخوا کے سب سے بڑے زرعی تحقیقاتی ادارے ترناب فارم میں کاشتکاروں کو زیتون سے تیل نکالنے اور اچار بنانے کیلئے تربیتی ورکشاپس منعقد کئے جاتے ہیں تاکہ کاشتکار زیتون سے معاشی فوائد حاصل کرسکیں۔
ترناب فارم کے ریسرچ آفیسر عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے صوبے کے 11 مقامات پر زیتون کرشنگ ملز لگائے گئے ہیں جہاں پر کاشتکار اپنے زیتون کے پھل کو لے جا کر باآسانی تیل نکال سکے۔
اُن کا کہنا ہے کہ "زیتون کے کرشنگ پر آنے والے خرچے کی 90 فیصد رقم حکومت اور 10 فیصد کاشتکار سے وصول کی جاتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ زیتون کی پیداوار میں کاشتکاروں کی دلچسپی بڑھیں”۔
عبدالرحمان کہتے ہیں گزشتہ سال خیبرپختونخوا سے دو لاکھ کلوگرام زیتون کی پیداوار حاصل ہوئی تھی،جس سے 20 ہزار لیٹر تیل نکلا جا چکا تھا مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ فروٹ کو تین دن کے اندر اندر ملوں تک پہنچایا جائے تاکہ اُس سے حاصل ہونے والی تیل کی مقدار برقرار رہے۔
تحقیق کاروں کا ماننا ہے کہ درخت میں زیتون کے پھل پر جتنا زیادہ عرصہ لگ جائے اُتنی ہی زیادہ تیل کی پیداوار حاصل ہوسکتی ہے اور جب کاشتکار پھل توڑے تو پلاسٹک کی بوری کی بجائے فروٹ باسکٹ میں رکھیں۔
ترناب فارم کے حکام کا کہنا ہے کہ جو کاشتکار اپنے پھلوں کے پکنے کا انتظار نہیں کرسکتے تو اُن کیلئے ضروری ہے کہ وہ زیتون کے کچے دانوں سے اچار یا مربہ بنائیں اور اچار بنانے کا طریقہ ترناب فارم میں باقاعدہ طور پر تربیتی ورکشاپس میں سکھایا جاتا ہے۔
ترناب فارم کے تحقیقاتی افسر فلک ناز کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی مرکز میں کاشتکاروں کو اچار اور مربے بنانے کیلئے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ ” جو بڑا اور کچا دانہ ہوتا ہے اس سے اچار بن سکتا ہے، کاشتکاروں کو دانے سے کڑوی مٹھاس نکالنے اور زیتون کو محفوظ بنانے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ ہم کاشتکاروں سے اپیل کرتے ہیں کہ آپ اپنے پھل لائیں اور اس سے مالی فوائد حاصل کریں”۔
ترناب فارم میں تربیت شُدہ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے محمد عرفان کا کہنا ہے کہ اُن کے علاقے میں زیتون کے بڑے بڑے باغات کھڑے ہیں، وہ صرف ان زیتونوں سے تیل نکالنے کا فن جانتے تھے، مگر اچار اور مربہ بنانے کا طریقہ تربیتی ورکشاپ میں سیکھا۔
عرفان کا کہنا ہے ” زیتون کی قدر و قیمت کا اندازہ یہاں ہوا ہے، یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ زیتون کی تیل کی قیمت زیادہ ہے مگر عوام ایک ہی قسم کے پھل میں زیادہ ورائیٹیز چاہتی ہیں تو اس میں اچار کو متعارف کروانا عوام کی توقعات کے مطابق ہوگا”۔
اُن کا کہنا ہے "میں اپنے کاروبار کو وسیع تر بنانا چاہتا ہوں اور اسکے لئے میں نے نئے نئے طریقے سیکھے ہیں، صرف اچار کا طریقہ نہیں بلکہ تین دن کے تریبتی ورکشاپ میں مکس سبزی اچار اور تیل والے اچار کا طریقہ بھی سیکھا اور اب میں وہاں جا کر دیگر کاشتکاروں کو بتاؤں گا”۔
ترناب فارم کے حکام کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں زیتون کی پیداوار بڑھانے کی غرض سے کاشتکاروں کو 70 فیصد سبسڈی نرخ پر پودے دئے جاتے ہیں جس کا مقصد صوبے میں زیتون کی جنگلات بڑھانے سے تیل کی پیداوار میں اضافہ ہونا ہے۔
ترناب فارم کے ڈایئریکٹر ضیاء اللہ کا کہنا ہے زیتون خوراکی تیل کی جگہ نہیں لے سکتا کیونکہ زیتون کے تیل کی قیمت دوسرے خوراکی تیل کی نسبت زیادہ ہے مگر یہاں پر ہماری کوشش ہے کہ زیتون کی درآمدات میں کمی ہو جائے اور اپنی پیداوار پر انخصار کریں۔
ضیاء اللہ کہتے ہیں کہ "زیتون کے تیل کی فی لیٹر قیمت ڈھائی ہزار سے 3500 روپے تک ہے اور قیمت میں اضافے کی وجہ سے عام لوگ اسے خوراکی تیل کے طور پر استعمال نہیں کرسکتے لیکن کوشش یہی ہے کہ خزانے پر بوجھ کم کرنے کیلئے ہم اپنی پیداوار میں اضافہ کریں”۔
ترناب فارم کے اعدادوشمار کے مطابق کے ہر سال صوبہ بھر میں زیتون کی پیداور تین ہزار ٹن تک ہے۔ جس سے 20 ہزار لیٹر تیل حاصل ہوتا ہے اور ایک لیٹر تیل کی قیمت 3500 روپے تک ہے جس سے کاشتکاروں کو کافی فائدہ ملتا ہے۔