خیبر پختونخواعوام کی آواز

قبائیلی اضلاع میں خواتین آج بھی ووٹ کے حق سے محروم

سلمیٰ جہانگیر

پختونخوا کی سخت روایات خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنےکی بھی ایک بڑی وجہ بتائی جاتی ہے۔ قبائلی ضلع مہمند کی زینت بی بی گلہ کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ اگر عورت کما کر لائے تو مرد کو روایات ،غیرت یاد نہیں رہتی لیکن جب ووٹ کے حق کی بات آتی ہے تو مرد کی غیرت جاگ جاتی ہے۔ جب خاتون ووٹ کا حق استعمال نہیں کرتی تو حکومت بھی مرد کی مرضی کی ہوگی۔ جو خاتون ہی بھگتے گی۔

زینت بی بی کی عمر 55 سال ہے، وہ باقاعدگی سے ہر انتخاب میں ووٹ کا حق استعمال کرتی ہیں۔ وہ پڑھی لکھی نہیں ہے لیکن پھر بھی ان کو کھبی بھی ووٹ ڈالنے میں مشکل پیش نہیں آئی۔ وہ ووٹ کا استعمال اپنا قانونی اور آئینی حق مانتی ہے۔

پشاور شہر کے گل محمد جنکا تعلق دیر پایاں سے ہیں لیکن وہ پشاور میں 40 سال سے رہ رہے ہیں، وہ خود ہر الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرتے ہیں لیکن گھر کی خواتین کو وہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ ووٹ ڈال سکے۔

گھر کی خواتین ووٹ کا حق کیوں استعمال نہیں کرسکتی، وجہ بتاتے ہوئے گل محمد کہتے ہیں کہ ایک تو ان کو پسند نہیں ہے کہ ان کی گھر کی خواتین کسی پولنگ سٹیشن جاکر قطار میں کھڑی ہوکر ووٹ ڈالے کیونکہ یہ انکی روایات کے خلاف ہے اور دوسری بات یہ کہ گاوں والے طعنے دیں گے کہ شہر جا کر پختون ولی بھول گیا ہے کیونکہ خواتین کے لیے گھر کی چاردیواری ہی اچھی سمجھی جاتی ہے۔ ویسے بھی خواتین کے پردہ کرنے کے پٹھان سخت پابند ہیں۔ ووٹ پول کرنے میں بے پردگی کا خدشہ ہوتا ہے۔

گل محمد کی اس بات سے زینت بی بی اختلاف کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ خواتین کے لیے الگ پولنگ سٹیشن ہوتے ہیں جہاں عملہ بھی خواتین ہی ہوتی ہیں تو بے پردگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ویسے ہی ایک جواز ہے کہ خاتون اپنی مرضی سے کسی پارٹی کو ووٹ دیں۔

فروری 2023 انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی مجموعی تعداد 12 کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار 760 ہے، جس میں مرد ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ92 لاکھ 63 ہزار 704 ہے جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 93 لاکھ 22 ہزار 56 ہے۔

اس اعلامیہ کے مطابق خیبرپختونخوا میں مجموعی ووٹروں کی تعداد 2 کروڑ 19 لاکھ 28 ہزار 119 ہے رجسٹرڈ مرد ووٹروں کی تعداد ایک کروڑ 19 لاکھ 44 ہزار 397 جبکہ خواتین ووٹروں کی تعداد 99 لاکھ 83 ہزار 722 ہے۔

صوبائی الیکشن کمیشن کے ترجمان سہیل احمد کے مطابق 2018 کے عام انتخابات میں خواتین کی ووٹنگ شرح مجموعی طور پر تقریبا 33 فیصد رہی ۔ خیبرپختونخوا میں خواتین سے متعلق کمیشن نے جاری ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقوں میں خواتین ووٹوں کی تعداد مجموعی طور پر 32 فیصد جبکہ صوبائی حلقوں میں 33 فیصد رہی جو 2013 عام انتخابات کے مقابلے میں کافی بہتر ہے۔

ترجمان نے 2023 خواتین ووٹروں کی تعداد کے حوالے سے کہا کہ وہ رپورٹ اب تک جاری نہیں ہوئی ہے۔ جو جلد جاری کیا جائے گا۔

دوسری جانب خیبر پختوخوا پاکستان تحریک انصاف کی خواتین ونگ کی صدر اور سابق ایم پی اے رابعہ بصری ( رابعہ بصری 2018 کے عام انتخابات میں خواتین کے لیے مخصوص نشست پر تحریک پاکستان انصاف کی امیدوار کے طور پر صوبائی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئی تھی)، نے خواتین کے ووٹ کے حق کو کم استعمال کرنے کے حوالے سے کہا ہے کہ کے پی میں خواتین رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن جب الیکشن ہوتا ہے تو خواتین باہر نہیں نکلتی ایک تو مسئلہ جو کے پی کلچر کا ہے،جہاں زیادہ تر خواتین پردہ کرتی ہیں زیادہ تر مرد اجازت نہیں دیتے اپنی خواتین کو کہ وہ ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے باہر پولنگ سٹیشن جائے ۔

رابعہ بصری کے مطابق پختونخوا میں زیادہ تر خواتین ووٹ کے حق کے استعمال کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی وہ ووٹ ڈالنے کے لیے وقت نکالنے کو شاید وقت کا ضیاع سمجھتی ہیں۔

وہ حل کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ ایک سیاسی پارٹی کا ویژن ہوتا ہے کہ خواتین کو موبلائز کریں کہ وہ نکلیں اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں اس نے بھی حالیہ انتخابات میں ڈور ٹو ڈور کیمپینز کی ہیں جس کی وجہ سے بہت سی خواتین نے حق رائے دہی کا استعمال بھی کیا ہے۔ لیکن یہ مستقل حل نہیں ہے خواتین کو ووٹ ڈالنے کے حق کے لیے خود مختیار کرنا بہت ضروری ہے۔

سابقہ ایم پی اے نے کہا کہ پختونخوا جیسے صوبے میں ایک خاندان کا سربراہ خاوند، والد یا بھائی ہوتا ہے اور ان کی گھر کی خواتین خود فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی بلکہ وہی سربراہ کو اختیار ہوتا ہے۔ اگر وہی مرد چاہے تو ووٹ کا استعمال کر سکتی ہیں ورنہ نہیں ، اس میں بھی بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پارٹی کا انتخاب بھی خاتون نہیں کرسکتی وہ بھی اس سیاسی جماعت کو ووٹ ڈالے گی جسکا بھائی، والد یا خاوند اسکو کہے گا۔

اس صوبے میں خواتین کے کم ٹرن آؤٹ کے ایک اور مسئلے کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی خواتین ونگ کی صدر بتاتی ہیں کہ سکیورٹی امن و امان کی صورت حال بھی ایک اہم وجہ ہے کسی بھی وقت کسی بھی پولنگ سٹیشن پر حالات خراب ہوسکتے ہیں تو سکیورٹی خدشات کی وجہ سے بھی زیادہ تر خواتین ووٹ پول نہیں کرتی۔

خیبرپختونخوا میں خواتین کے کم ووٹ ٹرن اوٹ کے حوالے سے پشاور کے سینئیر تجزیہ نگار محمد فہیم نے بتایا کہ سب سے پہلے لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ وہ ووٹ کا استعمال کیوں کرتے ہیں یا پول کرنا کیوں ضروری ہے۔ جب ان کو پتہ ہو کہ ان کے ووٹ سے فرق پڑتا ہے تو وہ گھر سے نکل کر ووٹ ضررو پول کریں گے۔ لیکن جب سسٹم پر اعتماد ہی نا ہو کہ وہ ووٹ دے یا نا دے کوئی فرق نہیں پڑے گا تو وہ کھبی بھی گھر سے نکل کر ووٹ کاسٹ نہیں کرے گے اسی طرح یہ مسئلہ کے پی کے خواتین کے ساتھ بھی ہیں۔

یہاں کی خواتین کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ وہ ووٹ دے یا نا دے کوئی خاص فرق ملک پر یا صوبے کے حالات پر نہیں پڑے گا۔ اگر بہت اچھے حالات بھی آئے تو خواتین کے حالات کھبی تبدیل نہیں ہونگے۔ خواتین کے مسائل کو اگر دیکھا جائے جیسے تعلیم، صحت، روزگار کے مواقع دیکھے جائے تو خاص تبدیلی کو وہ نہیں دیکھتی ۔

اگر ایک گاوں میں رہنے والی خاتون کو پینے کا صاف پانی اور گیس کی سہولت دینے سے لے کر ایک انڈسٹریلسٹ خاتون تک مسائل خاتون کی نمائندگی کے لئے کسی بھی سیاسی پارٹی کی منشور میں برائے نام تک ہوتے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں خواتین کی نمائندگی میں ناکام ہے ۔ ان کو چاہیئے کہ وہ خواتین کو اس بات کے لیے قائل کریں کہ وہ گھروں سے نکلیں اور ووٹ کاسٹ کریں کیونکہ ان کا ووٹ تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے۔

حالیہ دور میں پاکستان تحریک انصاف اور ماضی میں محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں پاکستان پیپلز پارٹی نے خواتین کے ووٹ کے حق پر کافی کام کیا اسی لیے اگر دیکھا جائے تو پی پی پی اور پی ٹی آئی کو اسکا کافی فائدہ بھی پہنچا ہے خواتین زیادہ تعداد میں ان دو پارٹیوں کو ووٹ دیتی ہیں۔ جبکہ باقی کسی بھی سیاسی جماعت نے کھبی بھی خواتین کے ووٹ کے حق کو اہمیت ہی نہیں دی ہے۔

اگر 2008 اور 2013 کے انتخابات کا موازنہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ 2024 انتخابات میں خواتین ووٹ ٹرن آؤٹ زیادہ ہے۔ دوسری اہم بات قانون سازی ہے جسکے مطابق کسی بھی حلقے میں 10 فیصد ووٹ کا کاسٹ ہونا ضروری ہے۔ اگر ووٹوں کا تناسب 10 فیصد نہ ہو تو وہ نتائج قبول نہیں کیے جائیں گے۔ اس لیے اب تمام سیاسی جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ خواتین زیادہ سے زیادہ ووٹ کا حق استعمال کریں۔ لیکن مسقل حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور میں خواتین کے تمام مسائل کے حل اجاگر کرنے کے ساتھ انکو ان کو قائل بھی کریں کہ وہ اپنے ووٹ کا حق ضرور استعمال کریں اور اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دیں۔

Show More

Salma Jahangir

Salma jehangir freelance journalist from Peshawar. I have done masters in international relations and political science from Peshawar university. Started my career with radio Pakistan Peshawar as news reader in 2007.
Back to top button