عدالتی احکامات کے باوجود پشاور میں خواجہ سراؤں کے لیے الگ پولنگ بوتھ کیوں نہ بن سکے؟
مصباح الدین اتمانی
"الگ پولنگ بوتھ اور قطار نہ ہونے کی وجہ سے پچھلے عام انتخابات میں پشاور کے بہت سارے خواجہ سراء ووٹ کے بنیادی حق سے محروم رہ گئے” یہ کہنا ہے پشاور سے تعلق رکھنے والی خواجہ سراء صوبیا خان کا۔
صوبیا خان خیبرپختونخوا سے پہلی خواجہ سرا ہیں جنہوں نے 2024 کے عام انتخابات میں پی کے 81 سے آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لیا۔ صوبیا خان نے بتایا کہ انتخابات سے پہلے (29 جنوری) کو پشاور ہائیکورٹ نے حکم دیا تھا کہ خواجہ سراؤں کے لیے الگ قطار اور پولنگ بوتھ ہوں گے، سکیورٹی ہوگی لیکن انتخابات والے دن ایسا کوئی اقدام دیکھنے کو نہ ملا۔
8 فروری کو ان احکامات پر کوئی عمل دارمد نہیں ہوا تو صوبیا خان نے اس کیخلاف توہین عدالت کی درخواست دیدی۔
صوبیا خان کا کہنا ہے کہ خواجہ سراء کمیونٹی کو مرد بھی اپنے پاس قطار میں نہیں چھوڑتے، اس معاشرے میں خواتین بھی ان سے دور ہوتی ہے اس وجہ سے وہ چاہتی تھی کہ مرد اور خواتین کیطرح خواجہ سراو کے لیے بھی الگ لائن ہو، وہ اسانی کے ساتھ ووٹ پول کریں۔ اس کے لیے انہوں نے کافی کوشش کی، میں نے خواجہ سراوں کے لیے الگ قطاروں کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن اور ضلعی انتظامیہ کو احکامات جاری کئے کہ خواجہ سراوں کو مکمل سہولیات دی جائے لیکن اس پر عملد درآمد نہیں ہوا۔
"خواجہ سراء پولنگ سٹیشن آئے لیکن انکو نہ چھوڑا گیا”
"عدالتی احکامات کے بعد میں پرامید تھی کہ ہماری کمیونٹی بھی کثیر تعداد میں ووٹ پول کریں گی، خواجہ سرا انتخابات کے دن پولنگ اسٹیشن آئے بھی لیکن ان کو نہیں چھوڑا گیا لوگوں نے انکو چھیڑا زیادہ تر خوجہ سرا سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے واپس چلے گئے، اس وجہ سے میرا ووٹ بینک متاثر ہوا، مردوں کیطرح خواجہ ووٹ پول کرتے تو میں جیت جاتی” صوبیا خان نے کہا۔
خیبرپختونخوا کی پہلی خواجہ سرا آر جے صوبیا خان نے کہا کہ انکے حلقے میں خواجہ سراوں کی کثیر تعداد موجود ہے لیکن انہیں دیگر حلقوں کیطرح سہولیات نہیں دی گئی۔ اس کے باوجود وہ 4137 ووٹ لے کر حلقے میں تیسری پوزیشن پر رہی۔
صوبیا خان الیکشن کے بعد عدالت گئی جہاں فریقین الیکشن کمیشن اور محکمہ پولیس کو طلب کیا گیا جنہوں نے کم وقت کا بہانہ بنایا کہ اس میں انتظامات ممکن نہیں تھے اور انے والے انتخابات میں اس پر عمل درامد کی یقین دہانی کرائی گئی۔
2017 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق ملک بھر میں 21 ہزار 774 خواجہ سرا موجود ہیں۔ جب کہ الیکشن کمیشن کے اکتوبر 2020 میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رجسٹرڈ خواجہ سرا ووٹرز کی تعداد دو ہزار 538 بتائی جاتی ہے۔
پنجاب سے 1886، سندھ سے 431، خیبر پختونخوا سے 133، بلوچستان سے 81 اور قبائلی علاقوں سے سات ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے اس وقت خواجہ سراؤں کا جو ڈیٹا سامنے آیا ہے اس کے مطابق ملک بھر سے 3 ہزار 29 خواجہ سرا ووٹر رجسٹرڈ ہیں۔
ٹرانس ایکشن الائنس کی صدر بھی ووٹ پول نہ کرسکی
خیبرپختونخوا میں خواجہ سراؤں کے حقوق کی تنظیم ٹرانس الیکشن الائنس کی صدر فرزانہ ریاض نے اس حوالے سے بتایا کہ انہوں نے پچھلے انتخابات میں اپنا ووٹ سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے کاسٹ نہیں کیا تھا، حکومت ہم سے وعدے کرتی ہیں لیکن اس پر عمل دارمد نہیں کرتی۔
انہوں نے کہا کہ صوبیا خان خواجہ سرا ہوتے ہوئے بھی مرد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہی تھی کیونکہ ان کو ایکس کارڈ جاری نہیں کیا گیا تھا۔ نادرا میں ہم مرد یا عورت کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ خواجہ سراوں کو اسمبلی میں مخصوص نشست دی جائے، کیونکہ ہم علاقے کے لیے نہیں خوجہ سراوں کے لیے کام کرتے ہیں، علاقے کے لوگ ہمیں ووٹ نہیں دیتے، مخصوص سیٹ کے زریعے ہمارے حقوق کا تحفظ ممکن ہے۔ آج بھی خواجہ سراو کو تحفظ حاصل نہیں ان کو ضلع بدر کیا جا رہا ہے۔
خیبرپختونخوا میں خواجہ سراوں کی تعداد کتنی ہے؟
فرزانہ ریاض کے مطابق خیبرپختونخوا میں خواجہ سراوں کی تعداد 70 ہزار سے زیادہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم انتخابی اور سیاسی عمل میں حصہ لے۔ ” میں کوشش کر رہی ہوں کہ کسی سیاسی جماعت میں ہم شمولیت اختیار کریں لیکن ایک بھی سیاسی جماعت ہمیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں”
انہوں نے کہا میں نے پاکستان تحریک انصاف سمیت عوامی نیشنل پارٹی میں شمولیت کی کوشش کی لیکن انہوں نے نظرانداز کیا۔ میرا ماننا ہے کہ سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد ہی ہم اسمبلی میں جا سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ محرب اعوان جو ایک خواجہ سرا ہے اور انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے لیکن اس کا تعلق پشاور سے نہیں، یہ خوش ائند ہے اس پر ہم خوش ہے لیکن جو خواجہ سرا 2009 سے خیبرپختونخوا میں سرگرم ہے ان کو کیوں قبول نہیں کیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ انے والے انتخابات سے پہلے خواجہ سراوں کو بطور ووٹرز رجسٹرڈ کریں، ان کے لیے الگ پولنگ بوتھ سمیت الگ الگ قطاریں یقینی بنائے، اس کے ساتھ ساتھ ان کو سہولیات اور سکیورٹی فراہم کی جائے، اور حکومت سمیت غیرسرکاری ادارے ان کے ساتھ بھرپور تعاون کریں تاکہ وہ سیاسی عمل میں شامل ہو۔
2024 میں 6 کروڑ سے زائد ووٹرز نے ووٹ ڈالے: فافن
فافن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ الیکشن 2024 میں 6 کروڑ 6 لاکھ ووٹرز نے ووٹ کا حق استعمال کیا ، الیکشن 2018کی نسبت 58 لاکھ زائد ووٹ ڈالے گئے، البتہ ووٹ ڈالنے کی شرح کم ہوئی۔
فافن کے مطابق سال 2018 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ 60 لاکھ تھی جبکہ الیکشن 2024میں 12 کروڑ 86 لاکھ تھی۔ فافن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقوں میں سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ این اے 214 تھرپارکر میں70.9 فیصد رہا جبکہ سب سے کم ٹرن آؤٹ این اے 42 جنوبی وزیرستان میں 16.3 فیصد رہا۔
الیکشن کمیشن کے پاس کتنے خواجہ سراء رجسٹرڈ ہیں؟
دوسری جانب الیکشن کمیشن کے خیبرپختونخوا کے ترجمان سہیل احمد نے اس حوالے سے بتایا پہلی بات تو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے ساتھ خواجہ سراوں کا بطور ووٹرز رجسٹریشن نہ ہونے کے برابر ہے، یا تو وہ بطور مرد یا پھر خواتین رجسٹرڈ ہے، اب سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ ملکر ہم ان کی رجسٹریشن پر کام کر رہے ہیں۔
جب ان کی رجسٹریشن بطور خواجہ سراء ہو جائے تو پھر ان کے لیے الگ قطار بنانا یا الگ پولنگ بوتھ بنانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، اور وہ ہم پوری کریں گے۔ خواجہ سرا ایک جگہ پر مقیم نہیں ہے، کسی کا شناختی کارڈ سوات، مردان تو کسی کا نوشہرہ کا ہے، یہ سب پشاور میں ووٹ پول نہیں کر سکتے، جہاں ان کا ووٹ رجسٹرڈ ہے وہاں یہ ووٹ پول کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ جن علاقوں سے ان خواجہ سراوں کا تعلق ہے ان کی بطور ووٹرز رجسٹریشن ان علاقوں میں ہوگی۔
قطار نہ ہونے کی وجہ سے ووٹ بینک پر اثر
الیکشن سے پہلے الیکشن کمیشن کو بروقت خواجہ سراوں کے لیے الگ قطار بنانے کے حوالے سے اگاہ نہیں کیا گیا تھا، لیکن جب ہم پولنگ عملے کو تربیت دیتے ہے تو ہم ان پر زور دیتے ہیں کہ بزرگ افراد، خواتین معذور اور خواجہ سراو کو ترجیح دیں ان کو قطاروں میں کھڑا نہ کریں، اور اس پر ہم عمل درامد بھی کرواتے ہیں، جہاں تک صوبیا خان کا تعلق ہے اس حوالے سے ہمارے نوٹس میں کوئی بات نہیں ائی ہے۔
ہمارے ساتھ خواجہ سرا مرد یا بطور عورت ووٹرز رجسٹرڈ ہے، ان کی تعداد انتہائی کم ہے، تقریبا100 خواجہ سرا ہے۔
مستقبل میں کیا ہوگا؟
خواجہ سراوں کی تعداد کم ہے، ان کو سہولیات فراہم کرنا اتنا مشکل نہیں، لیکن یہ کسی ایک حلقے میں نہیں رہتے، ہم ڈی آر اوز کو تربیت دیتے ہیں، ان کو مرد یا خواتین کی قطاروں میں کھڑا نہیں کریں گے، ان کے لیے انے والے انتخابات میں مکمل انتظامات اور سہولیات ہوں گی۔ ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور ہم خواجہ سراوں کو بطور ووٹرز ان کی جنس کے مطابق رجسٹرد کر رہے ہیں۔
ووٹ کے حق کے حوالے سے قانون کیا کہتا ہے؟
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل طارق افغان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا ہر شہری جس کی عمر 18 سال یا اس سے زائد ہو، اس کے پاس قومی شناختی کارڈ موجود، اس کے ووٹ کا اندراج ہوا ہو تو وہ ووٹ ڈالنے کا حقدار ہے۔ یہ ایک شہری کا بنیادی حق ہے کوئی بھی اس کو اس حق سے محروم نہیں کرسکتا۔
خواجہ سراؤں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے طارق افغان نے کہا کہ عدالت نے حکم دیا ہے کہ انکے لیے ووٹ ڈالنے کا بندوبست کیا جائے، انکے لیے الگ پولنگ بوتھ بنائے جائے کہ انکو ووٹ ڈالنے میں آسانی ہو، کوئی انکو ہراساں نہ کرسکیں۔ خواجہ سراوں کے لیے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ووٹ ڈالنے کے جو ریکوائرمنٹس ہیں اس میں انکے لیے آسانیاں پیدا کی جائے لیکن پاکستان میں قوانین پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ طارق افغان اس بات کو مانتے ہیں کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا خواجہ سراؤں کو الگ پولنگ بوتھ بناکر نہیں دیے گئے نہ ہی باقی سہولیات انکو مہیا کی گئی۔
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل نے مزید کہا کہ نادرا کے پاس خواجہ سراؤں کا ڈیٹا ہوتا ہے جبکہ حکومت اور الیکشن کمیشن کے لیے اتنا مشکل نہیں ہے کہ وہ خواجہ سراؤں کے لیے الگ پولنگ بوتھ قائم کریں قوانین تو موجود ہے بس ان پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کی ضرورت ہے۔