بابڑہ قتل عام کی 76ویں برسی: عوامی نیشنل پارٹی اور چارسدہ کی عوام کا شہدا کو خراج عقیدت
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کے علاقہ بابڑہ میں 600 سے زائد افراد کی یاد میں آج "یوم بابڑہ” منایا جا رہا ہے جہاں پر سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ آج بھی پشتونوں کو بے رحمی سے قتل کیا جا رہا ہے۔
خیبرپختونخوا کی سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ 12 اگست 1948 کو اسی دن بابڑہ کے مقام پر 600 سے زائد افراد کو قتل کیا گیا تھا جن میں سے اکثر لواحقین نے اپنے پیاروں کی لاشیں ڈر اور خوف کی وجہ سے دریا برد کئے تھے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی چیئرمین ایمل ولی خان کہتے ہیں ” بابڑہ کا واقعہ پشتونوں کا کربلہ ہے اور پشتون قوم کبھی بھی یہ دن نہیں بُھلا سکتی”۔ انہوں نے بابڑہ کی یادگار پر پھول چڑھانے کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اُس وقت کی غیر منتخب حکومت نے باچا خان کو خدائی خدمتگار تحریک ختم کرنے کا پیغام بابڑہ کی شکل میں دیا تھا۔
ایمل ولی خان کا دعویٰ ہے "آج بھی پشتونوں کو قتل کیا جا رہا ہے مگر طریقہ کار مختلف ہے”۔ انہوں نے میڈیا کے ساتھ بات چیت میں کہا "راستہ وہی ہے، سوچ وہی ہے مگر طریقہ کار مختلف ہے، پشتون وہ قوم نہیں بلکہ وہ کسی بھ جابر کے سامنے کھڑے ہونگے، مقابلہ کریں گے اور اپنے حقوق کا دفاع کریں گے”۔
اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی کے صدر میاں افتخار حسین نے ٹی این این کو بتایا کہ عوامی نیشنل پارٹی اگر حکومت میں آگئی تو وہ بابڑہ کے واقعے کی پوری تحقیقات کرے گی اور اس میں ملوث عناصر کے خلاف کاروائی کا آغاز کرے گی۔
میاں افتخار حسین نے بتایا کہ 76 سال قبل پختونوں کے ساتھ ریاست کی جانب سے ناروا رکھا گیا سلوک آج بھی ہو رہا ہے جنہیں دہشتگردی کے نام پر قتل کئے جا رہے ہیں۔
انہوں ںے ملک بھر میں عزم استحکام کے نام سے جاری آپریشن کی شدید مخالفت کرتے ہوئے بتایا کہ عوام کو اعتماد میں لئے بغیر کوئی بھی آپریشن کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔
تاہم حکومت پاکستان اور فوج کے اطلاعاتی محکمے نے بار بار وضاحت کی ہے کہ آپریشن عزم استحکام انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن ہوگا جس سے ملک بھر میں دہشتگردی اور انتہاپسندی کا خاتمہ ہوگا۔
بابڑہ کا تاریخی پس منظر کچھ یوں ہے کہ 12 اگست 1948 کو خدائی خدمتگاروں نے اپنی قیادت باچا خان، ڈاکٹر خان صاحب، قاضی عطاء اللہ، ارباب عبدالغفور اور دیگر خدمتگاروں کی گرفتاری کے خلاف بابڑے کے میدان میں ایک پرامن احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے، جب ہزاروں کی تعداد میں خدائی خدمتگار بابڑہ کے مقام پر پہنچے تو وہاں پر پہلے ہی سے موجود فوج اور پولیس نے اُن پر سیدھی فائرنگ کرکے سینکڑوں کی تعداد میں مظاہرین کو مار ڈالا۔
اس واقعے کے عینی شاہدین آج موجود نہیں ہے مگر چارسدہ سے تعلق رکھنے والے تحقیق کار ڈاکٹر سہیل خان نے اپنی کتاب ‘تاریخ چارسدہ’ میں لکھا ہے کہ اس واقعے میں چھ سو سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ 6 سو تک مارے گئے افراد ریکارڈ پر ہے مگر یہ تعداد اس سے کہی زیادہ ہے کیونکہ اس وقت کی حکومت مارے گئے افراد کے ورثاء سے ایک لاش کے بدلے میں فی گولی کی قیمت 50 روپے وصول کرتے تھے جس سے بچنے کیلئے اکثر لواحقین نے اپنے پیاروں کی لاشوں کو چھُپ کر دفن کر رہے تھے۔
اس وقت کے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا (شمال مغربی سرحدی صوبہ) قیوم خان نے واقعے کے حوالے سے اسمبلی کے فلور پر بتایا تھا کہ بابڑہ کے مقام پر احتجاج سے پہلے دفعہ 144 نافذ کیا گیا جس کی مظاہرین نے خلاف ورزی کی تھی۔ خلاف ورزی پر انہیں گولیاں مارکر قتل کر دیا گیا تھا۔