خیبر پختونخواعوام کی آواز

خیبرپختونخوا اسمبلی نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف متفقہ موقف اختیار کیا، قراردادیں منظور

حسام الدین

خیبر پختونخوا اسمبلی میں یوم استحصال کشمیر کے موقع پر تین قراردادیں متفقہ طور پر منظور کر لی گئیں۔ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔ قراردادیں ن لیگ کے جلال خان، پی ٹی آئی کے شیر علی آفریدی اور عبدالسلام آفریدی نے پیش کیں۔ ان قراردادوں میں کہا گیا کہ 1948 میں بھارت نے انسانی حقوق کو نظرانداز کرتے ہوئے کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ کشمیری آج دنیا بھر میں بھارتی مظالم کے خلاف یوم سیاہ منا رہے ہیں۔ مزید کہا گیا کہ 1947 کے تقسیم ہند کے منصوبے کے تحت کشمیر پاکستان کا حصہ ہے، اور ہزاروں کشمیریوں نے کئی دہائیوں سے حق خود ارادیت کے لیے جانیں قربان کیں۔

قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کشمیر کی متنازع حیثیت کو دنیا بھر نے تسلیم کیا ہے، اور کشمیری اپنے مستقبل کے لیے بھارتی ظلم کے خلاف مضبوطی سے کھڑے ہیں۔ پاکستان ہر فورم پر کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتا ہے۔

اس موقع پر سپیکر خیبرپختونخوا بابر سلیم سواتی نے کہا کہ آج ہمارا ایجنڈا یوم استحصال کشمیر ہے۔ 5 اگست 2021 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کے ساتھ اس وقت تک کھڑے رہیں گے جب تک انہیں ان کا حق نہیں ملتا، جس کے بعد اسمبلی نے تینوں قراردادوں کی متفقہ طور پر منظوری دی۔

جے یو آئی کی خاتون رکن ریحانہ اسماعیل نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے مسئلے پر آج امت مسلمہ خاموش ہے۔ جب تک امت مسلمہ کھڑی نہ ہوگی، یہ مظالم ختم نہیں ہوں گے۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی مضبوط کرنی ہوگی کیونکہ کشمیری ابھی تک حق رائے دہی سے محروم ہیں۔ آرٹیکل 370 کی تبدیلی کے بعد کشمیریوں کو اقلیتوں میں تبدیل کرنا ظلم ہے۔ ہم یہاں اظہار یکجہتی کے لیے بیٹھے ہیں اور وہاں کے مظالم برداشت نہیں کریں گے۔

عاصمہ عالم نے کہا کہ کشمیریوں کا احتجاج چار سالوں سے جاری ہے۔ پاکستانی حکومت اور عوام کشمیریوں کی جدوجہد میں ان کے ساتھ ہیں، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔ ارباب عثمان نے کہا کہ پاکستان کی عالمی حیثیت بہت بڑی ہے، اور ہم معاشی لحاظ سے مضبوط بن سکتے ہیں بشرطیکہ ہم قومی مفاد میں فیصلے کریں۔ امریکہ ہمیشہ یہودیوں کا ساتھ دیتا ہے کیونکہ ان کی معیشت ان سے وابستہ ہے۔ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے تمام ممالک کو بیٹھنا چاہیئے، لیکن امریکہ خود کو انسانی حقوق کا علمبردار سمجھتا ہے اور سب سے زیادہ خلاف ورزی بھی وہی کرتا ہے۔

ملکی مسائل کی بڑی وجہ بدانتظامی ہے، اور جب تک عوام ان غلطیوں پر سوال نہیں اٹھائیں گے، یہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔ سپیکر بابر سلیم سواتی کی ہدایت پر ایوان میں کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔

حکومتی رکن فضل الہی نے کہا کہ کشمیر میں ہونے والے مظالم اور میڈیا پر پابندیاں بہت افسوسناک ہیں۔ وہاں تین تین ماہ تک کرفیو لگایا جاتا ہے اور کھانے پینے کی اشیاء دستیاب نہیں ہوتیں۔ ہیومن رائٹس کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ کی قراردادیں کہاں ہیں؟ کیا فلسطین، کشمیر اور شام میں ہونے والے مظالم کے بعد بھی ظالموں کو امن نظر آتا ہے؟ مسلمانوں کو قربان نہ کیا جائے، اور اقوام متحدہ و انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ ہے کہ کشمیریوں پر ظلم بند کرائیں۔

ایم پی اے منیر حسین نے کہا کہ کشمیریوں کے حقوق سلب کرنا قابل مذمت ہے، اور ہمیں کشمیر کے معاملے پر واضح خارجہ پالیسی اپنانی ہوگی۔ بھارت نے کشمیریوں پر ظلم کی ایک تاریخ رقم کی ہے، اور کشمیریوں نے اس ظلم کے خلاف مزاحمت کی۔ عالمی برادری، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے یہ ایک واضح چیلنج ہے، اور ہمیں دوہری پالیسی ترک کرنی ہوگی۔

ایم پی اے سہیل آفریدی نے کہا کہ 5 اگست 2019 کا دن پاکستانیوں کے لیے تکلیف دہ ہے جب بھارت نے آرٹیکل 370 کو تبدیل کر کے کشمیریوں کی حیثیت کو ختم کر دیا۔ یو این کی قراردادیں موجود ہیں جو مقبوضہ کشمیر کے عوام کو آزادی دیتی ہیں، لیکن بھارت ان سب قراردادوں کو نظرانداز کر رہا ہے۔

خاتون رکن نیلوفر بابر نے کہا کہ کشمیر میں عورتوں کے ساتھ ظلم و بربریت جاری ہے۔ سیاست سے بالاتر ہو کر اس ملک کے بارے میں سوچنا چاہیے کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ کشمیر میں پانی، کھانا اور دفنانے کے وسائل نہیں ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ کشمیر کو آزاد کرائے۔

اس کے بعد سپیکر بابر سلیم سواتی نے اسمبلی کا اجلاس 8 اگست بروز جمعرات دوپہر دو بجے تک کے لیے ملتوی کر دیا۔

Show More

Hassam Uddin

حسام الدین صحافت میں 15 سال کا وسیع تجربہ رکھتے ہے۔ انہوں نے قومی اور بین الاقوامی میڈیا تنظیموں کے ساتھ کام کیا ہے، جہاں انہوں نے پاکستان اور افغانستان میں جنگ اور دہشت گردی سے متعلق خبریں کور کی ہیں۔ ان کی مہارت میں پارلیمانی رپورٹنگ بھی شامل ہے۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button