خیبر پختونخوا

‘ایک خوبصورت اور منفرد آواز ہمیشہ کے لئے خاموش کر دی گئی’

سلمان یوسفزے

خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی زیدہ گاؤں میں پشتو کے معروف گلوکار سید کفایت شاہ باچا قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہو گئے۔ مقامی پولیس کے مطابق واقعہ ذاتی دشمنی کا شاخسانہ ہے۔

زیدہ پولیس سٹیشن محرر کے مطابق مقتول کے بھائی سید گل باچا نے رپورٹ درج کرتے وقت پولیس کو بتایا کہ وہ اپنے بھائی کے ہمراہ نماز جمعہ ادا کرنے مسجد جا رہے تھے تو مسجد میں داخل ہوتے ہی ملزمان اویس اور عابد نے ان پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں کفایت شاہ باچا شدید زخمی ہو گئے اور بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے جبکہ فائرنگ سے ایک شخص بھی زخمی ہوا جس کو علاج کےلئے مقامی ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

پولیس کے بقول واقعہ کے بعد ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے جبکہ مقدمہ درج ہونے کے بعد ملزمان کی گرفتاری کے لئے سرچ آپریشن جاری ہے۔

‘ہنری ٹولنہ’ کی مذمت

خیبر پختونخوا میں فنکاروں کی غیرسرکاری تنظیم ‘ہنری ٹولنہ’ کے صوبائی صدر و گلوکار راشد احمد خان نے سید کفایت شاہ باچا پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کفایت شاہ باچا کا شمار ضلع صوابی کے ان فنکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے فن کی وجہ سے نہ صرف پشتون فنکاروں بلکہ اپنے علاقے کو ایک الگ پہچان دی تھی۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے راشد نے بتایا کہ باچا جی پشتو موسیقی کی دنیا میں ایک الگ پہچان رکھتے تھے اور یہی ان کی وجہ مقبولت تھی جبکہ ان کے بے شمار گیت اب بھی ان کے چاہنے والوں میں مقبول ہیں اور لوگ انہیں شوق سے سنتے ہیں۔

راشد کے بقول ‘انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے پشتون ذاتی دشمنیوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے گھر اجاڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے کافی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں جبکہ کفایت شاہ باچا کی وفات کی وجہ سے پشتو موسیقی اور پشتو موسیقی سننے والے ایک بہت بڑے فنکار سے محروم ہو گئے۔’

واضح رہے کہ اس پہلے بھی پشتو کے بیشتر فنکاروں (مرد و خواتین) کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے جن میں سوات سے تعلق رکھنے والی فنکارہ غزالہ جاوید بھی شامل ہیں۔

کفایت شاہ باچا کون تھے؟

سید کفایت شاہ باچا خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کا تعلق ضلع صوابی کے سید گھرانے سے تھا۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں زیدہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے شاعر و ادیب لیاقت تصور نے بتایا کہ 60 سالہ کفایت شاہ باچا نے جوانی میں ہی ستار بجانے اور گلوکاری کا آغاز کیا تھاجبکہ انہوں نے ستار بجانا اپنے والد سے سیکھا تھا۔

لیاقت تصور کے مطابق کفایت باچا نے اپنے زیادہ تر گیت ستار کے ساتھ گائے ہیں جبکہ ان کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ بیک وقت دو قسم کی آواز نکالتے تھے اور یہی انداز ان کی شہرت کا باعث بنا، ‘یہ 1987 کی بات ہے جب کفایت باچا کو اپنے منفرد انداز اور معیاری گیتوں کی وجہ سے شہرت ملی۔ اس سے پہلے وہ علاقی سطح پر موسیقی کے پروگرام کیا کرتے تھے اور وہ اپنے علاقے کے حجروں اور ڈھیروں میں جا کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔’

کفایت باچا نے اپنے فنی کرئیر میں ہزاروں کی تعداد میں علاقائی گیت گائے ہیں تاہم ‘د کچہ خاورو نہ جوڑ دے، زائے پہ زائے پہ لوگی تور دے، دا بوتکی بوتکی چی خکار ی دا زما د جانان کور دے’ گیت اب بھی لوگوں میں کافی مقبول ہے۔

تصور کے بقول کفایت شاہ نے زندگی کا ایک حصہ کویت اور دبئی میں گزرا ہے جہاں وہ محنت مزدوری کرتے تھے تاہم جب وہ وطن واپس لوٹے تو انہوں نے یہاں ایک فلاحی تنظیم کھولی جس کے ذریعے وہ علاقے کے مجبور اور لاچار لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ ان کے پسماندگان میں دو بیٹے شامل ہیں جن میں سے ایک بیٹا پہلے ہی اس دشمنی میں زندگی کی بازی ہار چکا ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر کفایت شاہ باچا پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کی گئی اور ان کے چاہنے والوں نے ان کی وفات کو بہت بڑا نقصان قرار دے دیا اور پشتو موسیقی کے لئے ان کے خدمات کو سراہا گیا۔

اس حوالے سے نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے والد ضیاءالدین یوسفزے نے ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ‘دشمنیوں اور لڑائیوں نے ایک خوبصورت اور منفرد آواز کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا۔’

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سیکرٹری ثقافت خادم حسین نے بھی اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ‘کفایت شاہ باچا کی وفات پر دلی افسوس ہوا۔ ایک گلوگارو کو قتل کرنا زندگی کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔’

خاتون صحافی انیلہ خالد نے بھی اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ‘انتہائی افسوس ہوا ضلع صوابی کے ہردلعزیز اور منفرد آواز کے مالک کلوگار کفایت شاہ باچا کے بارے میں سن کر، پہلے ان کے بیٹے اور اب انہیں قتل کیا گیا۔ بہت زیادہ افسوس ہوا۔’

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button