خیبر پختونخوا حکومت نے ماتحت عدلیہ کو اپنے یا بیوروکریسی کے زیر اثر لانے کیلئے قانونی مسودہ تیار کرلیا
طیب محمد زئی
صوبائی حکومت ایک بار پھر آئین سے متصادم قانون تیار کر رہی ہے قانونی مسودے کے مطابق ماتحت خیبر پختونخوا میں عدالتیں شدت پسندی، ریاست کے خلاف سرگرمیوں،مذہبی منافرت جیسے سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو جرم ثابت ہونے کے بعد سزائیں صوبائی حکومت کے طے شدہ گائیڈ لائنز کے تحت دیں گی۔
قانونی ماہرین نے اس قانونی مسودے کو آئین کے آرٹیکل 175کے خلاف قرار دیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے عدلیہ کو کسی معاملے ميں بھی ڈیکٹیٹ نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے صوبائی اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے میں ایک بل Khyberpakhtunkhwa sentencing act 2021 شامل کیا گیا، بعد میں اس قانونی مسودے کو پیش نہیں کیا گیا تاہم بل کی کاپی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس پر قانونی اور آئینی ماہرین نے شدید تنقید کیا ہے، صوبائی حکومت کی تیار کردہ مسودے کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت نے عدالتی اصلاحات کے پیش نظر ماتحت عدلیہ کو اپنے یا بیوروکریسی کے زیر اثر لانے کیلئے قانونی مسودہ تیار کر لیا ہے۔
قانونی مسودے کے مطابق شدت پسندی، ریاست کے خلاف سرگرمیاں، مذہبی منافرت پھیلانے سمیت دیگر سنگین جرائم کی پاداش میں ملزمان کو سزائیں دینے کیلئے حکومت قواعد و ضوابط ترتیب دے گی اس قانون کا اطلاق ماتحت عدالت کی جانب سے دی جانے والی بعض سزاؤں پر ہوگا اور ما تحت عدلیہ حکومت کی جانب سے مرتب کردہ انہی گائیڈ لائنز پر فیصلے کرنے کے پابند ہوں گی۔
سزائیں دینے سے قبل ماتحت عدلیہ دوران سماعت ثابت ہونے والے اشتعال انگیزی اور محرکات پر غور کرے گی، صوبائی حکومت کی جانب سے سزاؤں سے متعلق بل2021ء تیار کیا گیا ہے اس قانونی مسودے میں تجویز دی گئی ہے کہ شدت پسندی، ریاست کے خلاف سرگرمیاں، مذہبی عقائد، سیاسی نظریات پر قتل، اقدام قتل اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کو سزا دینے کیلئے ماتحت عدلیہ کے ججز کو پابند بنایا جائے گا کہ وہ حکومت کی جانب سے مرتب کردہ گائیڈ لائنز پر عملدرآمد کریں۔
قانونی مسودے کی شق 16 کے مطابق اس مقصد کیلئے ایک کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے گا جو ایک چیئرپرسن پر مشتمل ہوگا جبکہ کونسل کے دیگر ممبران کی تعداد5سے7 ہوگی، کونسل میں ان ممبران کا چناؤ کیا جائے گا جو قانون کو سمجھنے کیساتھ ساتھ اچھی شہرت کا حامل ہو، یہ اختیار حکومت کے پاس ہوگا کہ وہ کونسل میں حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیورو کریٹس، ججز یا وکلاء کو شامل کرے۔
حکومت کونسل کیلئے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کی تقرری عمل میں لائے جائی گی جو کونسل کے روزمرہ امور اور معاملات کو نمٹانے کا ذمہ دار ہوگا، کونسل سزاؤں کی وجہ سے مرتب ہونے والے اثرات اور گائیڈ لائنز پر عملدرآمد کی نگرانی کاکام کرے گا۔
کونسل پالیسی کے اثرات پر غور کرے گی اور حکومت کی جانب سے ہدایت ملنے پر قانونی تجاویز اور سفارشات مرتب کرے گی، کونسل ماتحت عدلیہ کی جانب سے سنائی گئی سزاؤں کی حقیقت سے عوام میں آگاہی پھیلائے گی ماتحت عدلیہ کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ جب وہ کسی ملزم کو کسی جرم میں مختلف سزائیں سناتی ہیں یا پھرسنائی جانے والی سزا کونسل کی جانب سے مرتب کردہ گائیڈ لائنز سے متصادم ہو تو اس صورت میں جج کو سزا دینے کی وجوہات بھی تحریر کرنا ہوگی۔
مذہب کی بنیادپر قتل کرنے، کسی کو زخمی کرنے یا ہراساں کرنے پر ملزم کو سزا سنانے کی صورت میں عدلیہ اس بات کو قبول کرے گی کہ مذکوہ واقعہ میں اشتعال انگیزی کا عنصر شامل تھا جبکہ فیصلہ میں یہ بتایا جائے گا کہ جرم اتنا بڑا تھا اسی طرح شدت پسندی کے واقعات میں جب کوئی ملزم اپنے جرم کا اعتراف کرتا ہے تو ملزم کو سزا دیتے وقت ماتحت عدلیہ اس بات کو قبول کرے گی کہ ملزم نے جو جرم کیا ہے وہ مذہبی عقائد، سیاسی نظریات یا معاشرتی و ثقافتی عوامل یا محرکات شامل تھے۔
مختلف جرائم میں سزاؤں کے تعین کیلئے قانونی مسودہ میں جدول بھی ترتیب دیا گیا ہے اور ماتحت عدلیہ کے ججز حکومت کی جانب سے دیئے گئے اس جدول کے مطابق سزائیں دینے کے پابند ہونگے۔
قانونی ماہرین کے مطابق صوبائی حکومت کی جانب سے تیار کردہ مذکورہ قانونی مسودہ آئین کے آرٹیکل175(اے)سے متصادم ہے،اس حوالے پشاور ہائیکورٹ کے وکیل فرہاد آفریدی کا کہنا ہے کہ مذکورہ مسودہ آئین کے خلاف ہے کیونکہ انتظامیہ کسی بھی صورت عدلیہ کو ڈیکٹیٹ نہیں کر سکتی کیونکہ آئین کے آرٹیکل 175 میں انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات الگ الگ ہیں اور کوئی بھی انتظامی افسر بیک وقت انتظامی اور عدالتی اختیارات استعمال نہیں کرسکتا اور اس کی زندہ مثال ہمارے پاس ماضی قریب میں ایف سی آر قانون تھا جس کے خلاف سیاسی اور وکلاء برداری نے تحریک چلائی اور بلآخر سابق فاٹا میں عدالتی نظام نافذ ہوا۔ ایف سی آر میں بھی پولٹیکل انتظامیہ کے پاس بیک وقت انتظامی اور عدالتی اختیارات تھے جو آئین کے خلاف اقدام تھا لہذا مذکورہ قانونی مسودہ آئین سے متصادم ہے اور آئین سے متصادم کسی بھی قانون رائج نہیں ہونے دیں گے۔
ایڈووکیٹ فرہاد آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں مشرف دور کے دوران آزاد عدلیہ کے لیے تحریک چلائی گئی تھی وکلاء کے پاس ایسے قوانین کے پاس ہونے بعد دو راستے ہیں عدالت سے رجوع بھی کرسکتے ہیں اور تحریک بھی چلا سکتے ہیں کیونکہ دنیا کے ہر ملک میں عدلیہ کو ہر قسم کے دباؤ سے آزاد رکھا گیا ہے.