باچا خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر پرمیرٹ کی خلاف ورزی کا الزام
باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے وائس چانسلر پر تقرریوں میں اقربا پروری، صنفی امتیاز اور میرٹ کی پامالی کا الزام لگایا گیا ہے۔
پیر کے روز پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے باچاخان یونیورسٹی میں 2017 سے کنٹریکٹ پر پڑھانے والے استاذ ڈاکٹر عمران اور ان کے دیگر ساتھیوں نے الزام لگایا کہ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے وائس چانسلر ڈاکٹر بشیر احمد نے تمام تقرریوں میں مبینہ طور پر میرٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ نے مارچ 2021 میں پروفیسر ، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اسسٹنٹ پروفیسر کے مختلف عہدوں کا اشتہار دیا تھا بھرتی میں جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے وہ باچا خان یونیورسٹی کے تقرری کےقواعد و ضوابط 2016 کے دفعات کے بالکل برعکس ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وائس چانسلر نے میرٹ اور شفافیت کی بجائے، اقرباپروری اور جانبداری کے ذریعے اپنے من پسند امیدواروں کو منتخب کیا اور انتخابی بورڈ کی وضع کردہ قوانین کے تمام شقوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مختلف آسامیوں پر بھرتیاں کی جیسا کہ تمام سبجیکٹ ایکسپرٹ پشاور یونیورسٹی سے لیے گئے تھے۔
ڈاکٹر عمران نے کہا کہ وائس چانسلر نے اپنی ہی بیوی ڈاکٹرشمائلہ بشیر کو بھی سبجیکٹ ایکسپرٹ کے طور پر فارمیسی کے سلیکشن بورڈ کے لئے مدعو کیا، پشاور یونیورسٹی میں طویل عرصے تک باچا خان یونیور سٹی کے وائس چانسلر مختلف بااثر عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، لہذا اسی یونیورسٹی سے اپنے من پسند افراد پر مشتمل (Subject Expert)سلیکشن بورڈ تشکیل دی تاکہ اپنے چہیتے افراد کی انڈکشن ممکن بنا سکے.
اکثرمنتخب امیدوار یا تو باچا خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے براہ راست پی ایچ ڈی کے طلباء تھے یا وہ وائس چانسلر کے ساتھ مختلف ریسرچ پیپر میں شریک تھے یعنی ڈاکٹر مسلم رضا (کیمسٹری ) اور ڈاکٹر سيف اللہ خان (مائیکرو بائیولوجی ) اس کی واضح مثالیں ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے قانون اور ضوابط کے مطابق مختلف ڈیپارٹمنٹس میں امیدواروں کو شارٹ لسٹ نہیں کیا گیا جتنے بھی امیدوار تھے سب کے سب کو انٹرویو کے لیے بلایا گیا جسمیں بعض ڈیپارٹمنٹس مثال کے طور پر کیمسٹری اور بائیو ٹیکنالوجی میں ساٹھ (60) سے زیادہ امیدواروں کو بلایا گیا تھا اور ان ڈیپارٹمنٹس کی انٹرویو ایک ایک دن میں کی گئی جس میں ہر ایک امیدوار کو بمشکل تین یا چار منٹ کا وقت دیا گیا اوران تین چار منٹ میں ایک پی ایچ ڈی امیدوار کو جانچنا سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ یہ وقت امیدوار کا تعارف کرانے کے لیے بھی ناکافی ہے۔
اسکے علاؤہ اگرچہ دیگر قابل پی ایچ ڈی درخواست دہندگان انتخاب کے لیے دستیاب تھے، تاہم انکو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے فقط ایم فل کے حامل امیدواروں کو ترجیح دی گئی مس بینش علی (جیالوجی) اور مسٹر سجاد علی (انگریزی) کی تقرریاں اسکی واضح مثال ہے۔ مزید یہ کہ ایم فل کی قابلیت رکھنے والی دیگر یونیورسٹیوں کے بیرونی امیدواروں کو انٹرویو کے لیے شارٹ لسٹ تک نہیں کیا گیا جبکہ اسی قابلیت کے اندرونی فیکلٹی ممبران کو شارٹ لسٹ کرکے منتخب کیا گیا اس کے علاوہ پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ میں زرمینہ بلوچ کو بھی منتخب کیا گیا جو کہ میرٹ کے بلکل بر عکس ہے۔
انہوں نے کہا کہ باچا خان یونیورسٹی کے قوانین کے مطابق ، کوئی بھی ملازم جو سلیکشن بورڈ میں امیدوار ہو وہ کبھی بھی سلیکشن بورڈ کے عمل میں حصہ نہیں لے سکتا حالانکہ ڈاکٹر خالد سعید کیمسٹری میں پروفیسر کے عہدے کے امیدوار تھے اور وہ نیڈ اسسمنٹ کمیٹی اور سکروٹنی کمیٹی کے کنوینر تھے۔ ڈائریکٹر QEC ہونے کے ناطے وہ مقالوں کی تشخیص میں بھی شامل تھے۔ سید عارف حسین شاہ کنٹرولر امتحان کے عہدے کے امیدوار تھے اور بطور رجسٹرار وہ سلیکشن بورڈ کے پورے عمل میں براہِ راست شامل تھے۔ محترمہ بینش علی جیالوجی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے کی امیدوار تھیں اور وہ مقالوں کی تشخیص میں بھی شامل تھیں۔ ڈاکٹر شکیل احمد اور ڈاکٹر ارشد خان بنگش ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے کے امیدوار تھے اور وہ نیڈ اسسمنٹ کمیٹی کے ممبر تھے۔
پرسنل سیکرٹری وائس چانسلر باچا خان یونیورسٹی مسٹر زاہد کو پشاور یونیورسٹی سے غیر قانونی طریقے سے تعینات کیا گیا۔ وائس چانسلر اور انکے پرسنل سیکرٹری دونوں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ اگرچہ باچا خان یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے زیر اثر تقریبا 300 ملازمین ہیں، لیکن وی سی صرف زاہد کو یہاں لے آیا تاکہ اپنا غیر قانونی کام بلا شبہ پورا کرسکیں۔
باچا خان یونیورسٹی کے قوانین کے مطابق، سلیکشن بورڈ کا ہر مستقل رکن 3 سال کی مدت کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔ تاہم ڈاکٹر عذرا خانم، جو کہ سلیکشن بورڈ کی مستقل رکن تھیں، اپنی مقررہ مدت پورا ہونے سے پہلے ہٹا کر انکی جگہ دوسرے ممبر کو اپنے ناجائز مفادات کے حصول کے لیے رکھا گیا۔
اس کے علاوہ سینٹ اور سینڈیکیٹ کے ممبرز نے بھی اس سلیکشن بورڈ کو میرٹ کے برعکس قرار دیا ہے اور ساتھ ہی ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے بھی ا س پر Observation لگائی گئی ہے لہٰذا اس سلیکشن بورڈ میں نہ صرف امیدواروں کی بلکہ سینٹ ،سینڈیکیٹ اور ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ممبران کے رائے کو بھی نظرا نداز کیا گیا۔
کئی دفعہ ہم نے یونیورسٹی کے مطلوبہ دفتر سے میرٹ لسٹ کا ڈیمانڈ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں میرٹ لسٹ دی جائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئیاور یونیورسٹی کے ویب سائٹ پر بھی کوئی ایسی میرٹ لسٹ نہیں ہے لہٰذا ہم گورنمنٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں انصاف دلائیں۔
انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر باچا خان یونیورسٹی ڈاکٹر بشیر احمد کی ایم فل کی ڈگری بھی متنازعہ ہے کیونکہ موصوف نے ایم فل کی ڈگری نیشنل سنٹر آف ایکسلنس ان فزیکل کیمسٹری پشاور یونیورسٹی سے کی ہے اور اس سنٹر سے جو ڈگری بھی ملتی ہے اُس کا عنوان ماسٹر آف فلاسفی ان فزیکل کیمسٹری (Master of Philosophy in Physical Chemistry) ) ہوتا ہے جبکہ صرف ڈاکٹر بشیر احمد کی ڈگری کا جو ٹائیٹل ہے وہ اس کے برعکس ہے۔
انہوں نے گزارش ہے کہ مذکورہ حقائق کے ساتھ منسلک دستاویزات کو مدنظر رکھتے ہوئے باچا خان یونیورسٹی کے مجاز حکام کی جانب سے غیرجانبدار طور پر ایک جی آئی ٹی تشکیل دی جائے تاکہ کیمپس میں غیر قانونی اور غیر مناسب تقرریوں کی تحقیقات کی جا سکے اور متاثرہ امیدواروں کو فوری انصاف فراہم کیا جا سکے۔