بلاگزجرائمخیبر پختونخوا

جب نبیلا نے سُسرال والوں کے ظلم سے تنگ آکر خودکشی کرلی

 

عربہ

ہمارے معاشرے کی لڑکیاں بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں، آگے جانا چاہتی ہیں نام کمانا چاہتی ہیں اپنی مرضی کی زندگی گزارنا چاہتی ہیں مگر افسوس کے انکو بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔ آج میں لڑکی اور ایک شادی شدہ خاتون کے حوالے سے بات کروں گی جو حالات کی وجہ سے بہت مجبور ہوگئی، خاتون نے تو حالات سے تنگ آکر خودکشی کرلی جبکہ لڑکی ابھی بھی زندہ ہے لیکن بہت تکلیف سے گزر رہی ہے۔
صبا نام کی ایک لڑکی ہے جو اپنی زندگی کا قصہ بیان کرتے ہوئے رو رہی تھی یہ زندگی بھی کیا زندگی ہے انسان کو کیا کچھ سکھاتی ہے اور کیا کچھ دکھاتی ہے۔ صبا جب مجھے اپنا قصہ بتا رہی تھی تو وہ رو رہی تھی وہ کہہ رہی تھی کہ وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے اور ان کے والدین ان کی شادی کہیں اور کروانا چاہتے ہیں یہ حق تو اسلام بھی عورت کو دیتا ہے کہ شادی چاہے لڑکے کی ہو یا لڑکی کی اسکی مرضی سے ہونی چاہیئے لیکن ہمارا معاشرہ ناجانے کیوں اس کو ماننے کو تیار ہی نہیں ہے۔

صبا ایک تعلیم یافتہ لڑکی ہے اور ان کے سب گھر اور خاندان والے پڑھے لکھے نہیں ہے ان لوگوں کی کوئی تعلیم نہیں ہے صبا نے تعلیم اپنی محنت توجہ اور شوق سے حاصل کی ہے اور اپنے نزدیک ایک چھوٹے سے پرائیویٹ سکول میں ٹیچنگ کررہی ہیں لیکن اس کے ساتھ اس کے بھائیوں اور ماں اور باپ سب کا رویہ ٹھیک نہیں ہے اور جب وہ سکول جاتی ہے تو اس کو غلط اور الٹی سیدھی باتیں سناتے ہیں تو ان حالات سے تنگ اکر وہ شادی تو نہیں کرنا چاہتی ہے اپنی زندگی میں اگے چلنا چاہتی ہے لیکن ان کے گھر والے اس کی شادی اپنی مرضی سے کروانا چاہتے ہیں جبکہ وہ اپنی مرضی سے زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی ہے۔

اس نے روتے ہوئے بتایا کہ اگر ماں باپ اپنے اولاد کا ساتھ نہ دے تو ایسی صورت میں اولاد کیا کریں پھر جب اولاد کوئی غلط قدم اٹھاتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ لڑکی ٹھیک نہیں تھی حالانکہ کوئی بھی لڑکی اچانک غلط قدم نہیں اٹھاتی بلکہ جب وہ بہت مجبور ہو جاتی ہے تو وہ کوئی غلط قدم اٹھاتی ہے میں یہ نہیں کہتی کہ لڑکیاں غلط قدم اٹھائے لیکن والدین کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنی اولاد کی بات سنے۔

ایک دوسری لڑکی نبیلا جس کی شادی پھوپھو کے گھرمیں ہوئی تھی تو وہ بھی اس طرح حالات سے تنگ ہوئی تھی اس کا شوہر اپنی ماں کا ایک ہی بیٹا تھا اور اس کی 7 بہنیں تھی نبیلا ان کی خدمت اور بہت عزت کرتی تھی لیکن ان کی نندے ان کو بہت ہی تنگ کرتی تھی اور ہزاروں باتیں نبیلا کو سناتی تھی پھر بھی وہ چپ چاپ سہتی رہی، اسی طرح نبیلا کی تین بیٹیاں بھی ہوگئی بڑی عید کی رات تھی جب اپنے حالات سے تنگ آکر اپنی چھوٹی چھوٹی بیٹیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انہوں نے خودکشی کر لی اور اپنے اپ کو گولی ماری لیکن گولی مارنے سے پہلے وہ اپنے ماں باپ کی طرف جاکر اپنا حال بیان کرکے واپس اپنے شوہر کے گھر میں واپس نہیں انا چاہتی تھی اور ماں باپ سے کہا تھا کہ میں اپ سب کی خدمت کرونگی مگر میں اس گھر میں نہیں جانا چاہتی لیکن اس کے والدین نے اسکا ساتھ نہیں دیا اور اس کو واپسی اپنے شوہر کے گھر بھیجا۔

جیسے ہی والدین نے اسکو واپس بھیجا تو ایک گھنٹہ بعد خود کو گولی ماری اور اس طرح ایک ہوا کی بیٹی جان کی بازی ہارگئی۔ ہر ماں باپ کو چاہئے کہ وہ ہر برے وقت میں اپنے بچوں کا ساتھ دے کیونکہ ماں باپ ہی تو آخری آسرا ہوتے ہیں جب وہ بھی ساتھ نہ دے تو انسان غلط قدم اٹھانے پھر مجبور ہوتے ہیں اپنے ہی تو اپنوں کا ساتھ دیتے ہیں جب اپنے ہی اپنے نہ بنے تو ایسی زندگی کا کیا فائدہ۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button