ایک باہمت ماں کی کہانی جس نے شوہر کے بغیر اپنے چھ بچوں اور گھر کو سنبھالا
جویریہ
ماں کا لفظ سنتے ہی ہر ایک کی چہرے پر مسکان آجاتی ہے کیونکہ ماں کا رشتہ ہی کچھ ایسا ہے، ماں بچوں کے لیے اپنی خوشیوں کی قربانی دیتی ہے، خود اچھے کپڑے نہیں پہنتی لیکین بچوں کو پہناتی ہے خود کھانے کی اتنی فکر نہیں کرتی جتنا اپنے بچوں کی فکر کرتی ہے۔ باقی ماوں کی طرح میری امی نے بھی ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی لیکن میری امی نے ہمارے لیے کچھ الگ کیا ہے کیونکہ ہمارے ہنستے بستے گھر کو کسی کی نظر لگ گئی تھی اور ہم نے بہت مشکل وقت دیکھا ہے۔
میری امی نے زندگی میں جو تکلیف سہی ہے وہ اج میں سب کو بتانا چاہتی ہوں، میری امی نے زندگی میں بہت تکالیف دیکھے ہیں جس کا انہوں نے بہت ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے، ہماری زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی ہم چار بہنیں اور دو بھائی تھے اور میرے ابو ایک سرکاری استاد تھے ہائی سکول میں پھر اچانک ہماری زندگی بدل گئی، میرے ابو کے کچھ دوست تھے جن کے ہاں اکثر ابو جایا کرتے تھے میری امی ہمیشہ ان کو منع کرتی تھی کہ یہ اچھے لوگ نہیں ہے مت جاو لیکن میرے ابو نہیں مانتے تھے اور جاتے تھے۔
ایک دن یوں ہوا کہ جب میرے ابو وہاں گئے تو ان کے کچھ لوگوں کے ساتھ جھگڑا ہوا تو میرے ابو بھی وہاں موجود تھے تو ان دوستوں کی خاطر میرے ابو نے بھی اس جھگڑے میں حصہ لیا اور وہ جھگڑا اتنا بڑھ گیا کہ اس میں گولیاں بھی چلی اور اسی طرح میرے ابو کو جیل جانا پڑا اور اس کے بعد میری امی کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا انکو نہ صرف گھریلو مسائل درپیش تھے بلکہ باہر کے لوگوں کی باتیں بھی سنتی تھی یہی سے میری امی کا امتحان شروع ہوا کیونکہ ہم بہت چھوٹے چھوٹے تھے، اس وقت ہمارے سر پر کسی نے بھی ہاتھ نہ رکھا یہاں تک کہ ہمارے اپنے چچا جو تھے انہوں نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا اور یوں ہی ہم سب بے سہارا ہوگئے لیکن میری امی نے جس طرح ہم سب کا خیال رکھا وہ میں بیان ہی نہیں کرسکتی۔
یہ ایک عورت ہی سمجھ سکتی ہے کہ اپنے شوہر کے بغیر زندگی گزارنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے لیکین پھر بھی ہماری امی نے ہم سب کو بہت ہی اچھی طرح سنبھالا اور مختلف چھوٹے موٹے کام کر کے ہم سب کو تعلیم دلائی اور ہماری بہت اچھی تربیت کی خود تو میری امی کی کوئی تعلیم نہیں تھی تو جب میری امی کو یوں اچانک اکیلے زندگی گزارنی پڑی تو اس نے ہم کو سمجھایا کہ زندگی میں تعلیم کا ہونا کس قدر ضروری ہے اور میری امی ہمیشہ افسوس کرتی کہ اگر میری زرا سا تعلیم ہوتی تو میں کوئی نوکری کرتی تو اسی طرح میری امی کسی کے اگے ہاتھ نہ پھیلاتی۔
اس مشکل وقت میں میرے ابو کے ایک دوست تھے صرف انہوں نے ضرورت کے وقت ہمارے سر پر ہاتھ رکھا لیکن جب وہ ہمارے لیے کوئی چیز لے کر آتا تھا تو ہر کوئی اس کا غلط مطلب نکالتا تھا اور میری امی کو اتنی غلط غلط بات کرتے تھے جس کے بعد میں میری امی بہت روتی تھی کہ نہ خود امداد کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو امداد کرنے دیتے ہیں اور اسی طرح میری امی بہت ہی اداس اور پریشان رہتی تھی لیکن میری امی نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور ہم سب کو بہت اچھی طرح سنھبالا ہر کسی کی بری نظروں سے بچا کے رکھا کیوں کہ ایک اکیلی عورت کو چار بیٹیوں کو سنبھالنا بہت مشکل ہوتا ہے حالات بھی اب بہت بدل گئے ہیں۔ اچھی تعلیم کے بعد ہماری والدہ نے ہماری اچھی اچھی جگہوں پر شادیاں بھی کروائی اور پوری طرح ہماری شادی کے لیے وہ سب کیا جو ایک لڑکی کے لیے ضروری ہوتا ہے ہم چاروں بہنوں کو اس مقام تک پہنچایا کہ اج ہم اپنے گھروں میں بہت خوش ہیں اور میری بڑی بہن اب اس مقام تک پہنچہی ہے کہ وہ تین نوکریاں بھی کرتی ہے اور جو دو اور ہے تو وہ پولیو میں کام کرتی ہیں اور میں سب سے چھوٹی مجھے میری امنی نے اس قابل بنایا ہے کہ میں ٹی این این کے لیے لکھ رہی ہوں۔
اج جب میری امی میرے ابو کو ملاقات کے لیے جاتی ہے تو میرے ابو اس کا بہت شکریہ ادا کرتے ہے کہ کیسے اس نے اپنی اور ساتھ میں میری چار بیٹیوں کو عزت سے رکھا وہ میری امی سے کہتے رہتے ہیں کہ کاش اس وقت میں نے اپ کی بات مان لی ہوتی تو اج اپ کے ساتھ بھی برا نہ ہوتا لیکن میری امی کی پھر بھی اتنی ہمت ہوتی ہے کہ میرے ابو سے کہتی ہے یہ سب خدا کا لکھا ہوتا ہے اور قسمت کی بات ہوتی ہے۔
میری امی کہتی ہے کہ انہوں نے زندگی میں جو کچھ دیکھا وہ کبھی کسی عورت کو زندگی میں نہ ملے کیوں کہ شوہر کے بغیر یہ دنیا والے جانوروں کی طرح خاتون کو دیکھتے ہیں اج جب ہم بڑے ہوئے اور میرے دو بھائی بڑے ہوئے تو میری امی کہتی ہے کہ اب چین کی نیند اتی ہے کہ جب ایک گھر میں مرد ہوتا ہے تو اس گھر کو کوئی بری نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔