‘ہم دو تین گھنٹوں کے لیے ہی سکول جاتے ہیں لیکن استانیاں ہمیں کچھ نہیں پڑھاتیں’
جویریہ
پہلے جب میری بیٹی سکول سے آتی تھی تو بہت خوش ہوتی تھی لیکن آج کل جب وہ سکول سے واپس گھر آتی ہے تو اداس ہوتی ہے۔ کل جب وہ سکول سے آئی تو بھی میں نے اسے اداس پایا جس کے بعد میں اس کے پاس گئی اور اس سے پوچھا کہ بیٹی کیا ہوا آج کل کیوں آپ جب سکول سے آتی ہو تو اداس ہوتی ہو۔
امامہ نے مجھے بتایا کہ امی اب سکول میں بالکل بھی صحیح پڑھائی نہیں ہوتی، استانیاں ہمیں کچھ صحیح نہیں پڑھاتی اور کہتی ہیں کہ آپ لوگوں سے اب سارے مضامین کے پرچے نہیں لیے جائیں گے بلکہ چار مضامین کے پرچے ہونگے اور اگر آپ پرچے نہیں بھی دینگے تو آپ سب پاس ہوجائیں گی۔
بیٹی نے جب مجھے یہ سب کچھ بتایا تو مجھے بہت دکھ ہوا کیوں کہ جس انداز سے اس نے مجھے کہا تو میں نے اس کے چہرے پر بہت ہی مایوسی محسوس کی پھر میں نے سوچا کہ کیا اس سال میری بیٹی بنا کچھ سیکھے ہی پاس ہوگی؟ میری بیٹی 13 سال کی ہے اور وہ آٹھویں جماعت میں پڑھتی ہے یہ سارا سال تو ویسے بھی سکول بند تھے یعنی جب سے کرونا وائرس پھیلا ہے تب سے انکے سکول بند تھے اور اب جبکہ سکول کھل گئے ہیں تو بھی استانیاں بچیوں کو صحیح وقت نہیں دے رہی۔ اس کے سکولوں میں پڑھایا نہیں گیا اور بچوں سے امتحانات لیے گئے۔
میری بیٹی بہت اداس ہے کہ امی اس سال ہمیں کوئی پوزیشن بھی نہیں دی اور سب کو پاس کر دیا کیوں کہ میری بیٹی ہر سال پوزیشن لیتی ہے اس سال نا لینے پر وہ بہت اداس ہے اب جو پاس کردیا سو کر دیا یہ ایک سال تو ویسے بھی ضائع ہوگیا لیکن اب جو ریگولر سکول کھل گئے ہیں تو بھی بچے سات اٹھ بجے جاتے ہیں اور دس بجے واپس آتے ہیں تو اتنے کم وقت میں بھی میری بیٹی کہتی ہے کہ امی ہم اتنی گرمی میں جاتے ہیں اور وہاں ایسے ہی بیٹھے ہوتے ہیں ٹییچر کلاس نہیں لیتی یہاں تک حاضری بھی نہیں لیتی اسی بات کو لے کر میری بیٹی بہت پریشان اور اداس رہتی ہے کے اگر کچھ سیکھیں گے ہی نیں تو ہمارا ملک کامیابی کیسے حاصل کرے گا اگر اسی طرح چلتا رہا تو یہ تو بہت برا ہوگا کیوں اگر بغیر پڑھے ہی سب پاس کردیئے جائیں گے تو تعلیم سے سب کا دل اچاٹ ہوجائے گا اور کوئی پڑھائی نہیں کرے گا کہ پاس تو ویسے بھی ہونا ہے۔
یہ قصہ صرف میرے گھر کا نہیں ہے بلکہ ہر گھر کا ہوگا کیونکہ جب سکولوں میں پڑھائی نہیں ہوتی تو اس سے کوئی ایک متاثر نہیں ہوتا بلکہ سکول میں پڑھنے والے تمام بچے متاثر ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بچیوں کی تعلیمی شرح پہلے سے بہت کم ہے اور رہی سہی کسر کورونا وائرس نے پوری کردی ہے لیکن اساتذہ تو ہوش کے ناخن لے اور بچوں کا قیمتی وقت ضائع نہ کریں کیونکہ ہم تعلیمی اداروں میں بچوں کو اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہاں ہمارے بچے پڑھ لکھ جائے لیکن جب سکولوں میں کوئی پڑھانے والا نہیں ہوگا تو بچے وہاں جاکر بھی کیا کریں گے۔
میری سب سے گزارش ہے کہ بچوں کے تعلیمی نظام پر غور کیا جائے اور بچوں کی تعلیم پر ذیادہ توجہ دے کیوں کہ تعلیم ہمارے آنے والی نسلوں اور ملکی ترقی کے لیے بہت اہم ہے۔