ضلعی عدالتوں سے ٹاؤٹس کا خاتمہ اک خواب بن گیا ہے
محمد طیب
خیبر پختون خوا کی ضلعی عدالتوں میں پیسوں پر ملزم کے لیے ضامن بننے والے ٹاؤٹس کا خاتمہ خواب بن گیا ہے، جس کی وجہ سے ایک طرف جرائم پیشہ افراد آسانی سے قید سے رہائی پا رہے ہیں تو دوسری جانب عدالتی نظام بھی متاثر ہو رہا ہے۔
خیبر پختون خوا کے تمام اضلاع کے سیشن کورٹس میں اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں ایسے افراد موجود ہیں جو پیسے لے کر ملزمان کے ضامن بن رہے ہیں۔ ٹاؤٹس غیرمقامی ملزمان کے لیے ضامن کی حیثیت سے عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں کیونکہ ضامن بننے کے لیے موجودہ قانون کے تحت دوسرے ضلع سے گرفتار ملزم ضمانت حاصل کرنے کے لیے عدالت میں اپنے مقامی ضلع کا ضامن پیش نہیں کر سکتا، مطلب جو ملزم جس ضلع میں گرفتار ہوا ہوا وہ اُسی ضلع میں ضمانت کے لیے ضامن پیش کرنے کا پابند ہے، اس قانونی سقم کی وجہ سے ٹاوٹس فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور روزانہ دیگر اضلاع کے ملزمان کے لیے ضامن کے طور پر عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق پشاور ڈسٹرکٹ کورٹس میں اس وقت پیسوں پر ملزمان کے ضامن بننے والے کئی ٹاوٹس موجود ہیں جو دیگر اضلاع کے ملزمان کا ضامن بننے کے لیے شناختی کارڈ، بجلی بلز اور دیگر کوائف پورے کر رہے ہیں اور یہی کوائف ضمانت ریکارڈ کے ساتھ عدالتوں میں جمع کرتے آ رہے ہیں اور اس تمام عمل کے لیے وہ ملزمان سے بھاری رقم لے رہے ہیں کیونکہ پشاور میں گرفتار دیگر اضلاع کے ملزمان کے لیے پشاور میں ضمانت کے لیے مقامی افراد ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے۔
ٹاوٹس ضامن بننے کا کام اکیلے نہیں کرتے بلکہ اس میں پورا ایک گروہ ملوث ہوتا ہے جس میں عدالتی عملے کے بعض اہلکار بھی شامل ہوتے ہیں، یہ کام عدالتی عملے کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ ضامن کے کوائف چیک کرنا اور اُس کی تصدیق کرنا عدالتی عملے کا کام ہوتا ہے اور ٹاوٹس پیش کرتے وقت وکلاء کے بعض منشی عدالتی عملے کو اعتماد میں لیتے ہیں اور جوڈیشل افسران کو اس سارے عمل میں لا علم رکھتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر اوقات دیگر اضلاع کے ملزمان کے ٹرائلز (مقدمات) متاثر ہو جاتے ہیں کیونکہ دوسرے ضلع کا ملزم اکثر اوقات ٹرائل کے دوران روپوش ہو جاتا ہے اور عدالت میں پیش نہیں ہوتا تو عدالت ملزم کے ضامن کے خلاف دفعہ 514 کے تحت کاروائی کا آغاز کرنے لگتی ہے لیکن ملزم کا ضامن بھی یا تو روپوش ہو جاتا ہے اور یا عدالتی عملے کے ساتھ مل کر معاملے کو ختم کر دیتا ہے۔
پشاور ڈسٹرکٹ بار کے نائب صدر افتخار حسین عرف سمندر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ٹاوٹزم کی روک تھام کے لیے اینٹی ٹاوٹزم کمیٹی موجود ہے جو ان افراد کے خلاف وقتاً فوقتاً کارروائیاں کرتی ہے اور ابھی تک ایک درجن کے قریب افراد کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹاوٹزم کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ضامن کے لیے بنائے گئے طریقہ کار میں ترمیم کی جائے اور ہر ملزم کو اپنے ضلع کے مقامی ضامن پیش کرنے کا کہا جائے تو اس طرح ٹاوٹزم کا مکمل خاتمہ ہو سکتا ہے بصورت دیگر ضامن کے لیے رواں طریقہ کار سے ٹاوٹزم کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔