عجلت اور جلدبازی، صوبائی اسمبلی کے متعدد قوانین متنازعہ بن گئے
محمد طیب
خیبر پختونخوا اسمبلی سے عجلت اور جلدبازی میں پاس ہونے والے قوانین میں بعض قوانین سے قانونی پچیدگیاں پیدا ہوئیں اور قانون سازی قانونی سقم کی وجہ سے متازعہ بن گئی۔
ماضی میں صوبائی اسمبلیوں سے ایسے کئی قوانین پاس کئے گئے جو بعد میں متازعہ بن گئے۔ ان میں سے ایک قانون خیبر پختونخوا انفورسمنٹ آف ویمن پراپرٹی ایکٹ 2019 بھی ہے جس میں صوبائی محتسب کو دیئے گئے اختیارات متنازعہ بن گئے ہیں اور معاملہ پشاور ہائی کورٹ چلا گیا ہے۔
صوبائی حکومت نے خواتین کی وراثت میں حق کے لیے 2019 میں قانون سازی کی اور اسمبلی سے ایک بل پاس کیا جس میں وراثت میں حق نہ دینے پر دس سال تک قید کی سزاء اور جرمانے کا تعین کیا گیا اور وراثت کے حصول کے لیے ایک قانونی طریقہ کار بھی وضع کیا گیا، جس میں متاثرہ خاتون کو صوبائی محتسب برائے ہراسگی میں شکایات درج کرنے اور وراثت کے لیے قانونی مدد لینے کا اختیار دیا گیا ہے لیکن قانونی ماہرین کے مطابق خیبر پختونخوا انفورسمنٹ آف ویمن پراپرٹی ایکٹ 2019 کے تحت صوبائی محتسب کو دیئے گئے اختیارات آئین اور قانون سے متصادم ہیں اور اس قانون میں سقم پایا جاتا ہے کیونکہ وراثت کے لیے قانون میں یہ اختیار سول کورٹ کے پاس ہے اور صوبائی محتسب ایک ساتھ انتظامی اور عدالتی اختیار استعمال نہیں کر سکتے، یہ خود آئین کے خلاف اقدام ہے۔
اس حوالے سے قانون دان اور سابق پریس سیکرٹری پشاور ہائی کورٹ بار اختر الیاس ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ خواتین کی وراثت و جائیداد کے حقوق کے تحفظ کیلئے انفورسمنٹ آف ویمن پراپرٹی ایکٹ 2019 متعارف کرایا گیا اور اس ایکٹ کے تحت صوبائی محتسب کی تقرری کی گئی تاکہ وہ خواتین کیخلاف ہراسانی کی روک تھام کے علاوہ وراثت میں ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین حقوق کی حق تلفی کی صورت میں صوبائی محتسب کے پاس باقاعدہ شکایت درج کی جا سکتی ہے تاہم یہ ایکٹ بذات خود آئین سے متصادم ہے اور یہ آئین کے آرٹیکل 175 اور 8 کیخلاف ہے۔
اختر الیاس ایڈوکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ سول پراسیجر کوڈ 1908 اور سول کورٹس ایکٹ 1962 کے تحت سول کورٹس کو سول معاملات نمٹانے کے اختیارات دیئے گئے ہیں، ”اس کیلئے قانون سازی کی گئی اور اس کے بعد محتسب کو انتظامی و عدالتی اختیارات دیئے گئے جو کہ آئین کیخلاف ہے کیونکہ قانون سازی کرتے وقت کئی قانونی معاملات کو نظرانداز کیا گیا ہے اور قانون سازی میں جلد بازی کی گئی ہے، اس طرح محتسب کو وسیع اختیارات دیئے گئے ہیں۔”
انہوں نے کہا اس حوالے سے پشاور ہائی کورٹ میں ایک رٹ بھی دائر کی گئی جس میں کے پی پروٹیکشن آف ویمنز رائٹس ایکٹ 2019 کے سیکشن 7 اور سیکشن 12 کو آئین سے متصادم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے، رٹ میں چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا، سیکرٹری لاء اور صوبائی محتسب کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
جلد بازی اور عجلت میں کی جانے والی قانون سازی کے بارے میں جب پشاور کے سینئر صحافی اور پارلیمانی رپورٹر محمد فیاض سے پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں صوبائی حکومت کی جانب سے ہونے والی قانون سازی کی اگر بات کی جائے تو درجنوں ایسے قوانین موجود ہیں جنہیں عجلت میں اسمبلی سے پاس کرایا گیا تاہم بعدازاں ان میں قانونی سقم ہونے کے نتیجے میں ترامیم کے لئے دوبارہ اسمبلی میں پیش کرنا پڑا، ان میں احتساب کمیشن کے نام پر ہونے والی قانون سازی بھی شامل ہے جسے بعد میں اٹھنے والے اعتراضات کے نتیجے میں تحلیل کرنا پڑا، اسی طرح بلدیاتی ایکٹ بھی اسمبلی میں پیش کیا گیا تاہم بعد میں قانون پیچیدگیوں کے نتیجے میں اس میں بھی ترامیم کرنا پڑیں۔
انہوزن نے مزید بتایا کہ پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی ترمیمی ایکٹ، سول سرونٹس ترمیمی ایکٹ اور یونیورسٹی ترمیمی ایکٹ کے علاوہ درجنوں قوانین تو اسمبلی سے عجلت میں منظور کرائے گئے لیکن بعدازاں جب ان پر عملدرآمد کا وقت آیا تو ان میں قانونی سقوم سامنے آئے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی اسمبلی میں کوئی کسی شعبے کے حوالے سے قانون سازی کی جاتی ہے تو اس میں متعلقہ ماہرین سے مشاورت نہیں کی جاتی بلکہ عجلت میں سفارشات تیار کر کے اسمبلی میں پیش کر دی جاتی ہے۔
واضح رہے کہا کہ آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو قانونی سازی کا حق دیا گیا لیکن عجلت اور جلد بازی کی وجہ سے کئی قوانین متازعہ بن گئے۔