زور سے مت ہنسو ایسے مت بیٹھو لڑکی ہو
رانی عندلیب
ہمارے پختون معاشرے میں لڑکیوں کی تربیت ایسی کی جاتی ہے کہ اسے بچپن سے ہی دبایا جاتا ہے کہ یہ کام کرو یہ نہ کرو لڑکیاں اس طرح نہیں کرتی۔ لڑکیوں کی تمام صلاحیتوں کے ساتھ نا انصافی کی جاتی ہے اسے کمتری میں مبتلا کردیا جاتا ہے جیسے ہی لڑکی چار یا پانچ سال کی ہو جاتی ہیں تو اسے یہ کہنا شروع کیا جاتا ہے کہ زور سے مت ہنسو.
ایسے مت بیٹھو، دوپٹہ سر پر اوڑھو.، کپڑے ایسے مت پہنو، بھائی کیا کہے گا؟ بابا کے سامنے ایسے کپڑوں میں مت جاؤ
یعنی لڑکی شروع ہی سے اپنی مرضی سے اٹھ بیٹھ نہیں سکتی، ہمارے معاشرے میں لڑکی کبھی بھی خود مختار نہیں ہوتی۔
بات جب کھانے کی آجائے تب بھی لڑکی کو یہ کہا جاتا ہے کہ تم لڑکی ہو بھائی کھالے تم بعد میں کھا لینا زیادہ کھانا بھائی کے لیے رکھا جاتا ہے اور کم کھانا لڑکی کو دیا جاتا ہے کہ گزارہ کر لو.
بوٹی بھی بھائی کے لیے رکھی جاتی ہے جبکہ گزارہ صرف بہن کے حصے میں آتا ہے اس طرح اگر تعلیم کی بات آتی ہے تو پہلے لڑکی کے لیے تعلیم حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھتے اور اگر اجازت مل بھی جائے تو لڑکی کو گورنمنٹ سکول میں داخل کروایاجاتا ہہے اور بھائی کو اعلی اور اچھے سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے لڑکی کو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے میٹرک کے بعد بھی لڑکی کو آگے پڑھنے کی اجازت نہیں ملتی اور اگر خوش قسمتی سے مل بھی جائے تو تو صبح وہ کالج جاتی ہے تو شام کو گھر کا سارا کام کرتی ہے۔
نوکری کی باری پر بھی یہی مسئلہ سامنے آتا ہے کہ پہلے اسے اجازت نہیں ملتی اور اگر مل بھی جائے تو یہ شرط رکھی جاتی ہیں کہ وہ نوکری بھی والدین اور بھائی کی مرضی سے کرے گی، جاب کے ساتھ وہ گھر کے تمام کام بھی کرے گی یعنی جاڑو، برتن، کپڑے دھونا اور کچن کا سارا کام کرنا بھی لڑکی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
پھر بھی گھر والے یہ کہتے ہیں کہ اپنے لیے پیسے کما رہی ہے۔
پھر جب بات شادی کی آتی ہے تو تب بھی لڑکی سے اس کی مرضی کے حوالے سے نہیں پوچھا جاتا اور اس کی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ بغیر اس کی مرضی کے کیا جاتا ہے۔ میں نے تو بعض ایسی لڑکیوں کو بھی دیکھا ہے جنہوں نے ماسٹر کیا ہوتا ہے اور والدین کی مرضی سے ان پڑھ لڑکے سے شادی کرلیتی ہے جس کی مثال میری ایک پڑوسن لڑکی ہے۔
ایف ایس سی کے بعد گلالئی کی شادی اس کے والدین کی مرضی سے ایک ان پڑھ لڑکے سے طے ہوئی. دونوں کے ذہنوں میں زمین آسمان کا فرق تھا.گلالئی اگر ہاتھ میں دوائی کا پرچہ بھی لے کر پڑھتی تو اس کا شوہر اسے یہ طعنہ دیتا کہ کس یار نے خط بھیجا ہے موبائل کا تصور تک نہیں کر سکتی تھی نتیجہ یہ نکلا کہ گلالئی ڈپریشن کا شکار ہو گئی اور اسے شوگر کی بیماری لگ گئی.
لڑکیوں کی اپنی ذاتی زندگی نہیں ہے اور نہ اپنی خواہشبلکہ اس کو ایک کھلونے سے زیادہ نہیں سمجھا جاتا پہلے والدین پھر بھائی اور اس کے بعد اس کے شوہر کی مرضی چلتی ہے اور وہ جو چاہتی ہے انکی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتی۔
لڑکیوں کو والدین کی خوشی پر قربان ہونا پڑتا ہے، جب سورا کی بات آتی ہے تب بھی لڑکی کو قربان کر دیا جاتا ہے
میں نے اکثر والدین کو یہ کہتے سنا ہے کہ پشتو میں محاورہ ہے (دہ خزو کلی نشتہ )اس کا مطلب یہ ہے کہ لڑکیوں کی اپنی مرضی نہیں ہوتی چاہے وہ کتنا بھی پڑھ لکھ لے یعنی لڑکی کو کسی بھی کام میں کوئی اختیار نہیں دیا جاتا. اگر والدین کے ساتھ ہو تو کہا جاتا ہے کہ لڑکی پرائے گھر کی ہے جب شادی ہوتی ہے تو کہتے ہیں پرائی گھر سے آئی ہیں پرآئی بیٹی ہے۔
لڑکی کی شادی نہیں ہوتی تو کہتے ہیں کہ لڑکی والد کے گھر پہ ہیں شادی ہوتی ہیں تو شوہر کا گھر اور بوڑھی ہوتی ہیں تو کہتے ہیں کہ بیٹے کے گھر پہ ہیں. لڑکی کا نہ کسی کام میں کوئی اختیار ہے اور نہ ہی اس کا کوئی گھر ہوتا ہے۔
لیکن اب حالات اور وقت بدل گیا ہے اور ایسے میں لوگوں کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کیونکہ خواتین بھی انسان ہیں اور انکو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزار سکیں۔