شانگلہ میں چوکیدار کی طالبہ سے زیادتی کی کوشش، راز افشاں کرنے پر دھمکیاں
نصیب یار چغرزے
زیادتی کا یہ واقعہ اٹھارہ جون کو ضلع شانگلہ کی تحصیل پورن تھانہ چوگا کی حدود میں واقع گرلز ہائی سکول شیکولئی میں پیش آیا مگر پولیس نے 30 جون کو ایف آئی آر درج کی، پہلے تو لڑکی کے خاندان نے شرم کے مارے ایف آئی آر درج نہیں کرائی لیکن ملزم کی طرف سے بار بار طالبہ کو دھمکیاں ملنے کے بعد بالآخر ایف آئی آر درج کر لی گئی۔
ہائی سکول شیکولئی کی جماعت دھم کی طالبہ شائستہ نے پولیس کو بتایا کہ 18 جون کو دس بج کر تیس منٹ پر جب سکول کی چھٹی ہوئی اور میں گھر جانے کےلیے سڑک پر گاڑی کا انتظار کر رہی تھی اس وقت گرلز مڈل سکول کا چوکیدار اختیار علی آیا اور مجھ سے کہا کہ آپ اتنی دھوپ میں کیوں کھڑی ہو، سکول کے اندر استانیاں بیھٹی ہیں ان کے ساتھ بیٹھ جاؤ جب گاڑی آ جائے گی تو پھر چلی جانا، جب میں سکول کے اندر گئی تو وہاں کوئی بھی استانی موجود نہیں تھی میں نے پوچھا کہ کوئی ٹیچر تو موجود نہیں ہے تو اختیار علی نے کہا کہ میں نے تو تمہیں اپنے لیے یہاں لایا ہوں، مجھے پکوڑے کھانے اور کولڈ ڈرنکس پینے کے لیے کہا جب میں نے انکار کیا تو وہ مجھے زبردستی کھلانے لگا۔
شائستہ کہتی ہیں کہ پھر میں نے بھاگنے کا ارادہ کر لیا تو اختیار علی نے مجھے پکڑنے کی کوشش کی، میرے دونوں ہاتھوں کو پکڑا اور کولڈ ڈرنکس میرے منہ میں ڈالا جو میں نے واپس تھوک دیا، مجھ سے کہا کہ میری خواہش پوری کرو ورنہ میں تمھیں جان سے مار دوں گا لیکن اللہ نے ہمت دی اس کو دھکا دے کر جان چھڑائی اور سکول سے باہر آ گئی، یہ میرے پیھچے بھاگ کر آر ہا تھا اور دھمکیاں دے رہا تھا کہ واپس آؤ ورنہ تیرے لیے اچھا نہیں ہو گا۔
کہتی ہیں کہ جب میں سڑک پر آئی تو وہاں ہمارے استاد ذاکر حسین آئے، انہوں نے مجھے بچایا اور چوکیدار کو ایک زوردار تھپڑ رسید کر دیا، اس واقعے کا کسی اور کو پتہ نہیں تھاـ
واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ایڈوکیٹ الطاف حسین ڈسٹرکٹ بار بونیر اور کراچی کے ممبر کہتے ہیں کہ اس طرح کے سینکڑوں کیسز ہوتے ہیں ہمارے ہاں لیکن رپورٹ بہت کم ہوتے ہیں کیونکہ معاشرے کے زیادہ تر لوگ خاندان کے وقار اور عظمت اس میں دیکھتے ہیں حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ جہاں بھی کیس سامنے آئے تو پولیس کے ساتھ پرچہ درج کرانا ضروری ہوتا ہے تاکہ نیچ حرکت کرنے والوں کو سزا ملے اور کوئی اور اس سے سبق سیکھ لے۔
تھانہ چوگا کے ایس ایچ او نے بتایا کہ مذکورہ ملزم کے خلاف ہم نے 506, 376, اور 511 کی دفعات لگائی ہیں، ”یہ ہمارے علاقے میں پہلا ایسا واقعہ ہے کہ اس کی باقاعدہ رپورٹ درج کرائی گئی ہے، اس سے پہلے بھی اس طرح واقعات ہوئے ہوں گے لیکن کوئی اپنی عزت کی خاطر رپورٹ درج نہیں کراتا یا قانون سے ناواقف ہوتے ہیں، اس واقعہ کی رپورٹ بھی بارہ دن بعد کی گئی، ہم نے ملزم کو گرفتار کرلیا ہے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ایک اور لڑکی جس کا تعلق اس گاؤں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع بونیر کی یونین کونسل سیورے سے ہے، اس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ میں نے ابھی ایم اے پاس کیا ہے جب میں نے پرائمری پاس کیا مڈل سکول دور تھا میری ساتھ جتنی بھی لڑکیاں تھیں سب نے اس وجہ سے سکول چھوڑ دیا کہ ہم اتنی دور پیدل نہیں جا سکتے لیکن میں نے یہ عزم کر رکھا تھا کہ میں ریگولر میٹرک پاس کروں گی اور اسی وجہ سے مجھے بہت مشکلوں سے گزرنا پڑا، مڈل تک کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا کبھی کبھی بھائی ساتھ جاتا تھا لیکن نہم اور دھم میں بہت اذیتوں سے گزرنا پڑا ڈیڑھ دو گھنٹے ایک طرف سے روزانہ پیدل جاتی تھی، تین چار سہلیاں اور تھیں لیکن وہ روزانہ نہیں جاتی تھیں اور میں کوئی چھٹی نہیں کرتی تھی اس وجہ سے مجھے مشکلات درپیش تھیں۔
کہتی ہیں کہ پیدل سنسان راستوں پر جاتی تو زیادہ ڈر انسانوں سے لگتا تھا کہ کوئی بھی مرد سامنے آتا تو گھور کر دیکھتا، ”میں نے بھی دل میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ جو بھی اگر کوئی حرکت کرے گا بس پتھر اٹھا کر مارنا ہے اور پورے دو سالوں میں دو دفعہ کسی کو پھتر مار کر بھگانا بھی پڑا اس طرح میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کر لیا۔
آگے کہتی ہیں کہ سب لڑکیوں کےلیے میرا یہ پیغام ہے کہ جراتمندانہ زندگی گزارو، جو بھی عزت پر داغ لگانے کی کوشش کرے تو کچل ڈالاو یقین مانو اگر کوئی بھی لڑکی کسی پر آنکھیں نکالے تو کسی کی مجال بھی نہیں کہ پھر سے کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھے۔