ویکس پینٹنگ کا ہنر خیبرپختونخوا میں ختم ہونے کے قریب
سٹیزن جرنلسٹ شاہ زیب آفریدی
‘میں مغل دور کے تین 3 سو سال پرانے مختلف ڈیزائن بنارہا ہوں اس میں میں کوشن، سوٹ، ٹیبل کلاتھ، ہیڈ سکارف وغیرہ بناتا ہوں اور اسی سے اپنا گھر چلا رہا ہوں’
یہ کہنا ہے ضلع پشاور کے علاقے لاہوری گیٹ سے تعلق رکھنے والے 70 سالہ ریاض احمد کا جنہوں نے ویکس پینٹنگ کے کام کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ ٹی این این کے ساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ وہ پچھلے 60 سالوں سے ویکس پینٹنگ کررہا ہے لیکن افسوس کہ اس جانب حکومت سمیت کوئی بھی توجہ نہیں دے رہا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں ایونٹ یا کہیں میلہ ہو وہاں جاکراپنے ہاتھ سے بنی ہوئی چیزیں نمائش کے لیے رکھتا ہے اور انہیں پیسوں سے اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پال رہا ہے۔ اس کا مزید کہنا ہے کہ وہ ایک تصویر کو دو دن میں بنا لیتا ہے اس تصویر کو وہ دو ہزار روپے میں فروخت کر دیتا ہے۔
اپنی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے ریاض احمد نے بتایا کہ 24 مارچ 2012 میں حکومت پاکستان کی طرف سے انکو تمغہ امتیاز دیا گیا، انہوں نے اپنے باپ اور داد کے کام کو زندہ رکھا ہوا ہے اور نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ بھارت میں بھی انکے کام کو سراہا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ویکس پینٹنگ کا ہنر دوسرے افراد تک منتقل کریں تاکہ یہ ہنر خیبرپختونخوا اور پورے ملک میں زندہ رہے لیکن اس کے لیے انکو حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے کیونکہ انکے پاس وسائل کی کمی ہے اور ہنر وہ لوگوں کو منتقل کرسکتے ہیں لیکن انکے پاس جگہ بھی کم ہے تو خیبرپختونخوا حکومت کو چاہئے کہ انکے لیے الگ جگہ کا بندوبست کرے تاکہ وہاں بیٹھ کر لوگوں کو سکھا سکیں۔ ریاض احمد نے کہا اس کے علاوہ حکومت کو چاہیئے کہ وہ اس سلسلے میں ورکشاپس کا بھی انعقاد کریں تاکہ اس میں بھی لوگ یہ کام سیکھ سکیں کیونکہ اس سے کئی ایک افراد برسرروزگار بھی ہوسکتے ہیں۔