پولیو قطروں کے مقابلے میں لوگ کرونا ویکسین لگانے کے زیادہ قائل ہیں
انیلا نایاب
اگر پولیو قطروں اور کرونا ویکسین کا موازنہ کیا جائے تو پولیو قطروں کے مقابلے میں لوگ کرونا ویکسین لگانے کے زیادہ قائل ہیں حالانکہ پولیو مہم کو کئی برس ہوگئے ہیں لیکن بد قسمتی سے پولیو مہم اور انسداد پولیو کے قطرے آج تک مختلف پروپیگنڈوں سے دوچار ہے۔
پاکستان دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہیں جہاں اب بھی پولیو وائرس موجود ہے اس وائرس کے خاتمے کے لیے جنگ آج تک جاری ہے بلاشبہ پاکستان نے اس وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے حوالے سے گراں قدر کامیابی حاصل کی ہے لیکن ابھی بھی اس حوالے سے کافی محنت درکار ہے کیونکہ جب ملک پولیو فری نہیں ہوجاتا تب تک کوشش جاری رہنی چاہیئے۔
پولیو ایک موذی وائرس ہے جس کی وجہ سے بچہ ہمیشہ کے لئے معذور ہو جاتا ہے اس کے باوجود والدین پولیو کے قطرے بچوں کو پلانے کے سخت خلاف ہیں۔پولیو کے قطرے پلانے سے بچہ ہمیشہ کے لیے اس موزی مرض سے بچ سکتا ہے لیکن بعض لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے۔ رواں برس بھی اب تک پاکستان میں کل 45 بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے جس میں زیادہ تر کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔
کئی برس سے پولیو مہم چلا آرہی ہے لیکن اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ کیوں لوگ قطروں کو پلانےکے سخت خلاف ہیں یہ مخالفت ابھی اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ پولیو پلانے والی ٹیم کے ساتھ پولیس لازمی ہوتا ہے اور افسوس کے پولیو مہم کو کمزور بنانے کے لیے بعض اوقات ان پر حملے بھی ہوتے ہیں اور چند روز قبل بھی مردان میں پولیو ٹیم کی سکیورٹی پرتعینات دو پولیس اہلکاروں کو قتل کردیا گیا ہے۔ آج تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس کے پیچھے کون سی ایسی وجہ ہے یا پھر کس کا ہاتھ ہے کہ پولیو مہم کو کوئی کامیاب نہیں دیکھ سکتا۔
پولیو کے مقابلے میں اگر ہم کرونا ویکسین کا موازنہ کریں تو ہم سادہ الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے بہت کم وقت میں کافی مقبولیت حاصل کر لی وہ لوگ بھی ویکسین لگاتے ہیں جو پولیو قطرنے پلانے کے سخت خلاف ہیں ویکسین لگانے میں ہر عمر کے افراد شامل ہیں، بوڑھے جوان مرد خواتین حتٰی کہ میں نے ہسپتال میں کافی ضعیف لوگوں کو بھی کورونا ویکسین لگانے کے لیے آتے دیکھا ہے۔
ہسپتالوں میں کئی کاونٹرز بنائے گئے ہیں لیکن پھر بھی کافی بھیڑ ہوتی ہے ہر کوئی ویکسین لگانے کا خواہش مند ہے۔چاہے وہ خواندہ ہو یا ناخواندہ ہے۔نہ تو پولیو کی طرح اس ویکسین کو لگانے کے لئے مہم چلائی گئی ہے اور نہ ہی کچھ اور ہوا ہے لیکن پھربھی لوگ ویکسین لگانے کے لیے آمادگی کا اظہار کر رہے ہیں۔
جب پاکستان میں ویکسین لگانا شروع ہوا تو کافی افواہوں نے جنم لیا کہ یہ ویکسین قابل اعتماد نہیں ہے بس صرف ایک تجربہ ہے اور بھی خدشات تھے جس میں یہ افواہیں کافی زور اور شور سے تھی کہ جب خواتین یہ ویکسین لگاتی ہیں تو انکی مونچھ نکل اتی ہیں اور مردوں کی یا تو دم نکل اتی ہے یا پھر با نچھ پن سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ان سے ہٹ کے ایک اور افواہ یہ تھی کہ اس ویکسین کو لگانے کے دو سال بعد خود بخود موت واقع ہو جاتی ہے ان تمام غلط افواہوں کے باوجود لوگ اس انتظار میں ہیں کے کب انکی باری آئے گی اور وہ ویکسین لگائیں گے تاکہ کورونا وائرس سے خود کو بچاسکیں۔
پاکستان کی حکومت نے ویکسین لگانے کا عمل تاخیر سے شروع کیا تھا اس دوران ویکسینیشن کے بارے میں کافی ہچکچاہٹ بھی رہی شروع میں لیکن اب لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ ان تمام غیر تصدیق شدہ خبروں اور افواہوں میں کوئی صداقت نہیں اور ویکسین لگانا وقت کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو اس وقت چین اور روس سے ویکسین مل رہی ہے لیکن ذرائع کے مطابق اب بھی مزید ویکسین کی ضرورت ہیں سرکاری ویکسینیشن پروگرام جب شروع ہوا تو سب سے پہلے 70 سال اور اس سے زیادہ عمر کے تمام لوگوں کو ویکسین لگانا شروع ہوا اس کر بعد باری ائی 40 سال کی عمر کے افراد کی جبکہ 16 مئی سے 30 برس سے زیادہ عمر کے افراد کا بھی ویکسینیشن کی رجسٹریشن شروع کرنے کا اعلان ہوا۔
بہت تیزی سے ویکسین لگانے کا عمل شروع ہے کرونا ویکسین کے بارے میں خدشات دور کرنے میں ڈاکٹروں لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ساتھ ساتھ علماء نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب تک 59 لاکھ سے زائد افراد کو ویکسین لگوائی جاچکی ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لوگوں نے کورونا اور ویکسین کو سنجیدگی سے لینا شروع کردیا ہے اور چاہتے ہیں کہ اس وبا سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔
کورونا ویکسین لگانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس وائرس نے بہت کم عرصے میں لاکھوں افراد کی جانیں لی ہے اور لاکھوں افراد کو متاثر کیا ہے۔ میں تو یہی کہوں گی کہ چاہے کرونا ویکسین ہو یا پولیو کے قطرے ہو عوام کو چاہیئے کہ دونوں کو سنجیدگی سے لے تاکہ پولیو اور کورونا دونوں کو شکست دی جاسکیں۔