نورا احساس آج کل ایک بار پھر شہ سرخیوں میں لیکن وجہ افسوس ناک
کیف آفریدی
ماضی میں پشتو شاعر امن اور محبت کا پیغام پھیلایا کرتے تھے لیکن اب شاعری میں خودکشی، تباہی اور بم دھماکوں کی بات ہوتی ہے۔ اسی طرح معیاری ڈرامے ، گانے او فلمیں بھی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ شاعری کو زیادہ تر لوگ عشق و محبت سے جوڑتے ہیں اس لیے ہمارے معاشرے میں خواتین کے لیے یہ معیوب سمجھا جاتا ہے کہ وہ شاعری کرے۔ پشتون شعراء میں خواتین شعراء کی تعداد نمک میں آٹے کے برابر ہے اس لیے اس میدان میں قدم رکھنے والی خواتین کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ معاشرے میں خاتون شاعرہ کو باغی سمجھا جاتاہے۔
اج کل کے دور میں جو لوگ اپنے فن کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ فیس بک ، ٹوئٹر ، انسٹاگرام ، یوٹیوب اور دوسرے سوشل میڈیا پیلٹ فارمز کا سہارا لیتے ہیں۔ خیبرپختونخوا سوات علاقے شگئ سے تعلق رکھنے والی اٹھارہ سالہ نورا احساس بھی ان شخصیات میں شامل ہے جنہوں نے اپنے فن کا جادو دکھانے کے لیے سوشل میڈیا کا ہی سہارا لیا، میڈیکل طالبعلمہ نورہ احساس کا اپنا نام منیبہ ہے اور ان کے بقول وہ سکول او کالج کے وقت کے دوران ٹوٹی پھوٹی شاعری کیا کرتی تھی اور آہستہ آہستہ شاعری کی میدان میں اتری۔ نوجوان شاعرہ نورا احساس کے مطابق نوجوانوں میں مقبول شاعر، ادیب اور سیٹیزن جرنلسٹ افسر افغان سے متاثر ہو کر اپنا فن سوشل میڈیا کے راستے نمودار کیا۔ دو سال قبل جب نورا احساس کی انٹری ہوئی تو کثیر تعداد میں نوجوان ان کے پراعتماد لہجے وانداز کے دیوانے ہو گئے۔ انکی انداز گفتگو دھیمی اور سریلی آواز کا جاود اسطرح برپا ہو گیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے نورہ احساس بلندی کی پروان چڑھنے لگی شاید کوئی ایسا سوشل میڈیا صارف ہو کہ نورہ احساس کو جانتا نہ ہو۔
اب اگر پشتون معاشرے پر روشنی ڈالی جائے تو اکثریت خواتین جب مختلف فیلڈز میں کام کرتی نظر آتی ہے تو وہ بہت مشکل اور سخت حالات کا مقابلہ کرتی ہے۔ ایک یوٹیوبر کے ساتھ انٹرویو میں نورہ احساس نے کہا تھا کہ وہ بھی شروع میں سخت اذیت اور مشکل حالت کا سامنا کر چکی ہے انکے خاندان والے انکے والدین کو کہا کرتے تھے کہ اس کو ماردو کیونکہ انکو لگتا تھا کہ نورہ نے روایات کے خلاف قدم اٹھایا ہے حالانکہ شعر و شاعری پشتون ثقافت کا حصہ ہے۔
اٹھارہ سالہ نورا احساس نقاب کرکے مخلتف پروگرامات ، مشاعروں اور انٹرویوز میں اپنی لکھی ہوئی شاعری سناتی ہے، انکی شاعری کتنی اچھی ہے اس پر تو کوئی مشہور شاعر اپنی رائے دے سکتا ہے پر یہ حقیقت ہے جب نورا احساس اپنی آواز میں اشعار اور غزل پڑھتی ہے تو انکی خوبصورت دھیمی آواز سننے اور دیکھنے والوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ نورا احساس کی مشہوری کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انکے فیس بک پیج پر پندرہ لاکھ سے زیادہ فالورز ہیں اسی طرح یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر بھی انکی کثیر تعداد میں پسند کرنے والے ہیں۔ اب ظاہری بات ہے کہ اتنی کم عمری او کم عرصے میں اتنی زیادہ شہرت مل جائے اور انکی مخالفین نہ ہو یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔
نورا احساس پر تنقید کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اٹھارہ سالہ نوجوان شاعرہ ایف آئی اے کے چکر بھی لگا چکی ہے اسطرح کئی بار نورا احساس کی شاعری کو لوگ توڑ مروڑ کر کے غیراخلاقی بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہیں اور اپنی یوٹیوب چینل کی پروموشن اور سستی شہرت حاصل کرتے ہیں۔ 26 اپریل کو اپنی اٹھارویں سالگرہ مناتے ہوئے نورا احساس کا کہنا تھا کہ انکی شادی ہو چکی اور وہ اپنی زندگی میں بہت خوش ہے جبکہ ان پر شعر وشاعری کی کوئی پابندی نہیں ہے۔
چند دن پہلے نورا احساس کی بغیر نقاب کی ایک تصویر وائرل ہوئی جس کے بعد کئی صارفین نے ان کا مذاق اڑانا شروع کیا۔ کثیر تعداد میں صارفین انکو برا بھلا کہنے لگے اور انتہائی نازیبا الفاظ سے انکو مخاطب کیا۔ سوشل میڈیا پر انکی مخالفین طرح طرح کے برے کمنٹس کرنے لگے جو دیکھنے میں انتہائی نامناسب لگتے ہیں اور چند لوگوں نے ہی انکی حوصلہ افزاح کی۔ اب اگر ایک لمحے کے لیے سوچا جائے تو انکی صورت کا مذاق اڑانے والوں کی یہی آرزو تھی کہ جس طرح انکی آواز خوبصورت ہے تو شکل وصورت بھی اسی طرح ہونا چاہیے تھی۔
صارفین کی یہ سوچ قدرت کے قانون کے مترادف ہے الله تعالیٰ جس کو چاہیے حسن وجمال دے اور جس کو چاہیے خوبصورت آواز دیے اس کی مخالفت کرنا گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ بغض اور کینہ کو ایک طرف رکھ کر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو نورا احساس کی خوبصورت آواز کی طرح اسکی صورت بھی پیاری ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکاری نہیں ہے کہ اسی نورا احساس نے سوشل میڈیا پر اپنی شاعری کے زریعے صارفین کو لطف اندوز کیا اور نئی نسل میں خاص کر خواتین کے لیے شعر وشاعری کے میدان میں آنے کا ایک راستہ بنایا لیکن ندامت اس بات کی ہے کہ کیسے پشتون معاشرہ کسی لڑکی کو اسکی شکل و صورت کا طعنہ دیتے ہیں حالانکہ بحثیت پشتون لڑکی کو عزت واحترام سے دیکھا جاتا ہے پر یہاں نہ تو عزت ہے اور نہ احترام۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے انتہائی محترم اور قابل عزت بنایا ہے اس لیے اسلام اس قسم کی تمام باتوں کی مکمل طور پر نفی کرتا ہے کہ جس میں قابل احترام انسابیت کی تذلیل و توہین کو اپنی طبعی تفریح اور روحانی تسکین کا زریعہ بنایا جائے۔