جب بھی کسی لڑکی کا رشتہ آتا ہے تو پہلا سوال حسب نسب کے بارے میں کیا جاتا ہے
نشاء عارف
ذات پات اور نسلی امتیاز قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے اور دنیا بھر کے سماجوں میں بھی ذات پات کا نظام موجود رہا ہے۔
پاکستان میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں ذات پات یا نسلی امتیاز کا کوئی تصور نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بھی ذات پات اور نسلی امتیاز موجود ہے ہمارے معاشرے میں بعض ذاتوں کو اعلیٰ اور بعض کو ادنٰی سمجھا جاتا ہے یہ خیال نہ کیجئے کہ ذات پات کی برتری صرف غیر مسلموں میں پایا جاتا ہے حقیقت یہ ہے کہ مسلمان بھی اس باطل تصور کا اتنا ہی شکار ہوئے ہیں جتنا دوسرے مذاہب والے۔
زمانہ قدیم سے حسب نسب اور ذات پات کی برتری کا سلسلہ چلا آرہا ہے اور اب اس نے مختلف شکل اختیار کر لیے ہیں
خاص طور جب بھی کسی لڑکی کا رشتہ آتا ہے تو سب سے پہلے حسب نصب کے بارے میں سوال کرتے ہیں دوسرا سوال کے لڑکا کس شعبے میں کام کرتا ہے اور اس قسم کے اور بھی کئی غیر ضروری سوال کرتے ہیں۔
شہر کے لوگ اپنے شہریوں میں ہی رشتہِ کرنے کرانے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح گاؤں کے لوگ اپنی توہین سمجھتے ہیں اپنی بہن بیٹی کا رشتہِ اگر کسی شہری یہ دوسرے خاندان سے آئیں۔
دنیا کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی ہم اور ہماری سوچ وہی کی وہی رکی ہوئی ہے۔ اپنی ہی برادری میں رشتہِ کرنے اور کرانے کے پابند ہیں ہمارے گاؤں کے جاننے والے اپنی برادری سے باہر رشتہِ کرنے اور کرانے کو ایک بہت بڑا عار سمجھتے ہیں بار با ر اپنے خاندان میں شادیوں کی وجہ سے ان کی نئی نسل زیادہ تر معذور ہے۔
اگرکوئی لڑکی کسی لڑکے سے پسند کی شادی کرنا چاہتی ہے اور والدین کو بتاتی ہے کہ وہ اس رشتے پر رضامند ہے تو والدین راضی نہیں ہوتے اور کہتے ہیں کہ مرجائیں گے لیکن اس جگہ تمہاری شادی نہیں ہونے دیں گے، والدین کہتے ہیں کہ ان کے خاندان اور ہمارے خاندان میں کافی فرق ہے اُن کا خاندانی پیشہ (شاخیلان) ہے اور اس سے ہماری بدنامی ہوگی کچھ دن بعد لڑکی گھر سے غائب ہوتی ہے پتہ چلتا ہے کے لڑکی نے والدین کی مرضی کے خلاف شادی کر لی۔
ذات پات یا خاندان کی اونچ نیچ کے خیال کو بالائے طاق رکھا جائے اور رضامندی سے بیٹی کا رشتہِ دیا جائے تو یہ نوبت نہیں آئے گی۔ ذات پات سے مراد اگر اونچ نیچ کا تصور ہے تو اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں۔
ہمارے اردگرد اونچ نیچ ہر طبقے اور گرو میں موجود ہے اپنے سے مختلف اور کمتر سمجھنے کا رویہ عام ہے تمام انسان حقوق رتبے اور صلاحیت میں ایک دوسرے کے برابر ہیں لیکن اس بات کو کوئی سمجھنے کو تیار نہیں ہے۔
حالیہ دہائیوں میں تعلیم کے فروغ کے باعث ذات پات کے اثر میں کسی حد تک کمی واقع ہوئی ہے اس میں شہر میں رہنے والے خاص طور پر قابل ذکر ہے شہرروں میں مختلف ذات پات کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں لکین ان تبدیلیوں کے باوجود ذات پات کی بنیاد پر شناخت ابھی بھی موجود ہے اور خاندانی نام اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شخص کس ذات سے تعلق رکھتا ہے۔
میں کہتی ہوں کہ اب اس خیال سے ہمیں نکلنا چاہیئے کیونکہ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے اور ہم بہت پیچھے رہ چکے ہیں، ہمیں انسانیت کو لے کر آگے بڑھنا چاہیئے کیونکہ ذات کوئی بھی ہو انسان انسان ہوتا ہے۔