"ڈیوٹی کے دوران مجھے کورونا ہوا، اب بیوی، بہن اور خالہ بھی میری وجہ سے بستر پر ہیں” پولیس اہلکار
محمد باسط خان
‘جسم میں درد محسوس ہوا تو ٹیسٹ کروایا, پتہ چلا کہ مجھے بھی کورونا کے موذی مرض نے لپیٹ میں لے لیا ہے، میرے چھوٹی بیٹیاں جب مجھ سے ملنے کمرے آنے کی ضد کرتی ہے تو انہیں مجبورا ڈنٹنا پڑتا ہے اور انہیں دیکھ کر مجھے رونا آجاتا ہے’.
یہ کہنا ہے چارسدہ ضلعی پولیس کے ترجمان صفی اللہ کا جو اس وقت کورونا وائرس سے متاثر ہیں اور گھر میں قرنطینہ ہے۔
صفی اللہ نے بتایا کہ دو دن بعد میری بیوی کو بھی میرے وجہ سے کورونا ہوگیا، گھر میں جب بہن نے میرا کام کاج سبنبھالا تو انکو بھی موذی مرض نے گھیرے میں لے لیا، میری خالہ جب میرے پوچھنے کے لئے میرے گھر میں تشریف لے آئی تو انہیں بھی اب کورونا ہوگیا ہے، اب میرے دیکھ بال کی ذمہ میرے ماں نے لی ہے جو کافی احتیاط کیساتھ گھر کی دیکھ بال کرتی ہے اور ہم سب دعا گوں ہیں کہ انہیں یہ وائرس نہ لگ جائے۔
صفی اللہ کہتے ہیں کہ موذی مرض نے میرے دو بچیوں کو بھی مجھے سے الگ کردیا ہے اور اپنے بچیوں کو گھر سے نانی کی طرف بھیج دیا ہے تاکہ وہ مجھ سے متاثر نہ ہو۔
انہوں نے کہا .پولیس اہلکار بھی فرنٹ لائن پر عوام کی جان ومال کے تحفظ کے لئے موجود رہتے ہیں اور وہ بھی بیماری کی حالت میں بھی اپنے تمام تر ذمہ داریاں گھر سے نبھاتے ہیں کیونکہ عوام کی خدمت ان کی اولین ترجیح ہے۔
چارسدہ پولیس ترجمان نے بتایا کہ ہیلتھ ورکررز کی طرح پولیس اہلکاروں کے لئے بھی ویکسین کے لگوانے کے عمل کو ترجیح دی جائے اور مختلف پولیس لائنز میں کیپمس لگا کر تمام پولیس اہلکاروں کو ویکسین لگوائی جائے۔
خیبر پختونخوا میں کورونا وائرس کے تیسر لہر نے پولیس اہلکاروں کو جہاں اپنے لپیٹ میں لیا ہے وہاں اس موذی مرض سے کئی پولیس اہلکار جان کی بازی ہار گئے ہیں تو کئی اب بھی اس موذی مرض سے لڑ رہے ہیں۔
ہسپتالوں میں جہاں ہیلتھ ورکررز فرنٹ لائن پر مریضوں کی دیکھ بال کرنے کے لئے موجود رہتی ہے وہاں پر عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لئے پولیس اہلکار بھی فرنٹ لائن پر ہوتے ہیں اور شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے پولیس اہلکار بازاروں اور مارکیٹس میں ہر وقت موجود رہتے ہیں، لیکن ان اہلکاروں کے لئے اب تک ویکسین کا عمل شروع ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔
خیبر پختونخوا پولیس کی جانب سے جاری دستاویزات کے مطابق صوبہ بھر میں اب تک 15 سو سے زائد پولیس اہلکار کورونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں جن میں مرنے والوں کی تعداد 44 ہیں۔
موذی وباء کی پہلی لہر کے دوران پختونخوا پولیس کے 12 سو 35 اہلکار کورونا سے متاثر جبکہ 39 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے ، دوسری لہر میں 2 افراد جاں بحق جبکہ 173 افراد متاثر ہوچکے تھے، جبکہ تیسری لہر میں 3 افراد جاں بحق جبکہ 99 افراد متاثر ہوچکے ہیں۔
پولیس کی جانب سے جاری دستاویزات کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے کے ہزارہ ڈویژن کے پولیس اہلکار موذی وائرس سے زیادہ متاثر ہوچکے ہیں جس سے 10 افراد جاں بحق جبکہ 4 سو 34 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
صوبائی دارلحکومت پشاور کورونا وائرس سے متاثر ہونے والا دوسرا بڑا ضلع ہے جہاں 13 پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ 151 افراد متاثر ہوچکے ہیں، ضلع مردان میں کورونا وائرس سے 10 افراد جاں بحق جبکہ 151 اہلکار متاثر ہوئے ہیں۔
وائرس سے کوہاٹ میں پولیس فورس میں 4اموات 172 متاثر، جبکہ ڈی آئی خان میں 56 اہلکار متاثر ہوئے ہیں اور کوئی موت واقع نہیں ہوئی۔
پولیس ذرائع کے مطابق پولیس اہلکار بھی طبعی عملے کی طرح فرنٹ لائن پر موجود ہے تاہم انکے ویکسنیشن کے لئے اب تک کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے، جس سے زائد العمر پولیس اہلکاروں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
دوسری جانب آئی جی پولیس خیبر پختونخوا ثناء اللہ عباسی نے ٹیلیفونک رابطہ کرنے پر ٹی این این کو بتایا کہ حکومت سے کورونا سے انتقال کرنے والے پولیس اہلکاروں کو شہداء پیکچ دینے کی درخواست کردی ہے۔
انہوں نے بتایا: فرنٹ لائن پر کام کرنے والے پولیس اہلکاروں کے لئے ویکسینیشن جبکہ جاں بحق افراد کے لئے شہداء پیکچ دینے کی بھی درخواست کی ہے۔
آئی جی پی کے پی نے بتایا کہ پولیس اہلکار بھی ہیلتھ ورکرز کی طرح فرنٹ لائن پر کورونا وباء کیخلاف لڑرہے ہیں، کورونا وباء سے انتقال کرنے والے پولیس اہلکاروں کو شہداء پیکچ دینے کے لئے حکومت فوری اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرتا ہوں۔
اس حوالے سے جب سیکرٹری ہیلتھ امتیاز شاہ سے جب رابطہ کیا گیا تو انکا کہنا تھا کہ ویکسینیشن کا عمل چالیس سال سے زائد عمر کے پولیس اہلکاروں کے لئے عام شہریوں کی طرح جاری ہے، جس طرح آئی جی کے پی اور دیگر پولیس اہلکاروں نے ویکسین لگوایا ہے اسی طرح جس پولیس افیسرز نے ویکیسین نہیں لگوایا ہے وہ بھی جلد از جلد لگوائے۔
انہوں نے کہا: اتنی محدود وسائل میں پولیس اہلکاروں کے لئے الگ ویکسین کا انتظام ممکن نہیں ہے ، اسلئے عام شہریوں کی طرح پولیس اہلکاروں کے بھی مرحلہ وار ویکسینیشن کا عمل جاری ہے۔
"پولیس لاک ڈاؤن پر عمل کروانے میں کتنی متحرک ہے”
پاکستان میں کورونا کیوجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن پر عملدرآمد کروانے کےے لئے پولیس انتظامیہ کیساتھ متحرک ہے، لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد پولیس باہر نکلنے والے شہریوں کو حفاظتی اقدامات پر عمل کروانے میں لگے ہیں۔
پولیس کی جانب سے عوام کو گھر میں رہنے کے لئے پولیس موبائل کے ذریعے اعلانات بھی کی جارہی ہے کہ وہ بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلے اور اس سخت حالات میں ایس او پیز پر عمل درآمد کو یقینی بنا کر انتظامیہ کا ساتھ دیں۔
؎پولیس کی جانب سے عوام کو روکنے کے لئے مختلف شاہراوں پر روکاٹیں بھی کھڑی کردی گئی ہے