مسجد قاسم علی خان پشاور، ایک پوری تاریخ کا امین
مولانا خانزیب
مسجد قاسم علی خان پشاور اپنے اندر ایک پوری تاریخ سموئے ہوئی ہے۔ اس مسجد کے نام کے حوالے سے دو آرا سامنے آئی ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ اور اس کی قریب تین اور مساجد مغل گورنر مہابت خان نے سترویں صدی میں تعمیر کرائی تھیں اور یہ مساجد مہابت خان اور ان کے بھائیوں قاسم علی خان، دلاور خان اور گنج علی خان کے نام سے منسوب کی گئی تھیں۔
تاہم دوسری جانب آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر ابراھیم کی تحقیق کے مطابق قاسم علی خان مغل بادشاہ اورنگزیب کے دور میں ایک افسر تھا جس کے نام سے یہ مسجد منسوب کی گئی تھی۔
ان کی تحقیق کے مطابق دیگر دو مساجد دلاور علی خان اور گنج علی خان بھی اس وقت کے دو اور سرکاری افسروں کے نام پر رکھی گئی تھیں۔ اس مسجد کے ساتھ آزادی کی تحریک کے دور کے حوالے سے بڑے بڑے لوگ وابستہ رہے ہیں اور یہ مسجد ایک طرح سے اس وقت کے حریت پسند رہنماؤں کا گڑھ ہوتی تھی۔ اس مسجد کے متولی و خطیب خاندان پوپلزئی سدوزئی رہے ہیں جن میں سے ایک بڑا نام مولانا عبد الرحیم پوپلزئی کا ہے۔
پوپلزئی خاندان کے بڑے افغانستان غزنی سے ھندوستان کی طرف 1672 کے قریب آئے تھے جبکہ 1842 کے دور میں پوپلزئی خاندان کے ایک بڑے عالم دین مولانا عبد الرحیم پوپلزئی جو کہ عبد الرحیم پوپلزئی کے دادا تھے، یہاں منصب قضاء پر فائز تھے۔ اس دور میں پشاور اور اس کے ملحقات سکھ راج کے زیرِ تسلط تھے۔ اس وقت مولانا پوپلزئی اس مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کے عائلی و دیوانی تنازعات حل کراتے تھے جبکہ اسی دور سے مسجد قاسم علی خان میں روزہ اور عید کا چاند دیکھنے کیلئے باقاعدہ کمیٹی کا اجلاس بھی ہوتا تھا جو ہنوز جاری ہے اور اس کے فیصلے کے نتیجے میں دور دور تک لوگ روزہ رکھتے ہیں۔
اپنے دادا کے نام پر ہی عبد الرحیم پوپلزئی کا نام رکھا گیا۔ آپ کے والد کا نام عبد الحکیم پوپلزئی تھا جو اپنے وقت کے ایک اور جید عالم دین تھے اور اس وقت کی خلافت کمیٹی کے صوبائی صدر بھی تھے، 1934 کو وفات پا گئے تھے۔ عبد الرحیم پوپلزئی شیخ الھند کے خاص شاگرد تھے۔ مولانا محمد میاں نے ان کو شیخ الھند کے سترہ بڑے شاگردوں میں سترہویں نمبر پر شمار کیا ہے، ان سے انتھائی عقیدت رکھتے تھے۔
عبد الرحیم پوپلزئی اپنی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ایک مذہبی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ میں ایک سوشلسٹ غریب پرور حریت پسند کے طور پر جانے جاتے ہیں جنہوں نے کانگریس اور نوجوانان بھارت سبھا کے پلیٹ فارم سے ہر وقت آزادی کیلئے قربانیاں دیں، مزدوری محنت کشوں کے حقوق کیلئے ہر جگہ احتجاجوں اور جلوسوں میں پہنچ جاتے تھے۔
1928 میں آپ باقاعدہ طور پر کانگرس کا رکن بنے جبکہ 23 اپریل 1930 کو سانحہ قصہ خوانی سے چند دن پہلے کاکا جی صنوبر حسین کی درخواست پر نوجوانان سرحد بھارت سبھا کے صدر بنے اور اس سانحہ کے بعد آپ کو گرفتار کر کے نو سال قید سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔
کاکا جی صنوبر حسین، عبد العزیز خوشباش، عبد اللہ پنکھی اور فضل الٰہی نے بھارت سبھا کے نام سے مصلحتاً بھارت کا نام حذف کر کے ‘نوجوانان سرحد’ کے نام سے یہ تنظیم قائم کی اور اس کا الحاق نوجوانان بھارت سبھا کے ساتھ کیا۔ نوجوان بھارت سبھا اس وقت کے انقلابی نوجوانوں کی ایک ملک گیر منظم جماعت تھی جو 1925 میں قائم ہوئی تھی اور حریت پسند رہنما بھگت سنگھ اس کے پہلے جنرل سیکٹری تھے جن کو بعد میں 1929 کو پھانسی دی گئی تھی۔
یہ انقلابی نوجوانوں کی ملک گیر تنظیم تھی جو پرتشدد مزاحمت کے ذریعے فرنگی سامراج کیخلاف متحرک ومنظم تھے۔
غازی امان اللہ خان کیخلاف جب انگریزوں کی سازشوں سے شورش برپا ہوئی تو آغا سید لال بادشاہ کی قیادت میں ایک وفد نے پشاور سے جا کر لوگوں کو سمجھانے اور غازی کا ساتھ دینے کیلئے قبائلی علاقوں کا دورہ کیا جس میں عبدالرحیم پوپلزئی بھی شامل تھے اور انھوں نے غازی امان اللہ خان کے حق میں ایک فتویٰ بھی جاری کیا، اس دورے کے کافی مثبت اثرات مرتب ہوئے تھے۔
مولانا عبدالرحیم پوپلزئی بھگت سنگھ کے جنازے (جلی ہوئ لاش کے ٹکڑے) کے ماتمی جلوس میں بھی شرکت کرنے کیلئے گئے تھے۔ ان کے علاوہ ان کے ساتھ سبھاش چندر بوس، جے پرکاش نارائن، یوسف مہر علی اور مبارک ساغر بھی تھے۔ مولانا پوپلزئی کے ساتھ ان کے انقلابی ساتھی محمد یونس قریشی بھی ان کے ساتھ تھے۔ قبائل میں روپوش ہوکر جہاد شروع کرنے کے بعد حاجی صاحب ترنگزئ بھی مولٰنا کیساتھ صلاح مشورے کرتے رہتے تھے۔
مشہور حریت پسند رہنما رام سرن نگینہ اپنی کتاب اٹک پار کی یادیں میں لکھتے ہیں کہ مفتی سرحد مولانا پوپلزئی 18 فروری 1935 کو فریضہ حج کی ادائیگی کے سلسلے میں روانہ ہونے لگے تو رام سرن نگینہ نے بھی پشاور سے نوشہرہ تک اُن کے ساتھ سفر کیا۔
جب مولانا پوپلزئی کو 10 اپریل 1940 کو فقیر ایپی کا وہ دردناک خط ملا جو راقم رام سرن کے پاس محفوظ ہے تو مولانا اپنی 15 سالہ بیٹی کو بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑتا چھوڑ کر فوراً بنوں کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ رام سرن نگینہ یہاں بھی مولانا کے ساتھ تھے حالانکہ یہ دورہ اسلامی جہاد کے حوالے سے مسلمانوں کو فقیر آف ایپی کی ہر ممکن مدد پر آمادہ کرنے کے لیے تھا۔
مولانا صاحب نے مساجد اور دیگر مقامات پر جتنے لوگوں سے خطاب کیا۔ فقیرایپی کے ساتھ دینے کا قول و قرار حاصل کیا۔ رام سرن نگینہ اُن کے ساتھ رہے یہاں تک کہ بنوں میں ہی مولانا صاحب کو مقدمہ بغاوت میں گرفتار کر کے قید تنہائی کی تاریک کوٹھری میں ڈال دیا گیا۔ یہ قید با مشقت جس میں مولانا کو بیڑیاں بھی پہنائی گئی تھیں۔ ن کی زندگی کی آخری قید تھی۔
رام سرن نگینہ مولانا صاحب کی گرفتاری کے دوران اُن کا اشارہ پاکر روپوش ہو گئے۔ بعد میں جب رام سرن نگینہ بھی قید ہوکر جیل پہنچے تو انھیں مولانا پوپلزئی کے ساتھ آخری بار جیل میں رہنا نصیب ہوا۔ اس دوران وہ وقت بھی آیا جب رام سرن نگینہ نے اپنے آئیڈیل مولانا پوپلزئی اور باچا خان کی تقلید میں رمضان المبارک کے روزے بھی رکھنے شروع کردیے ۔ جنگ آزادی کے رہنماؤں سے اس قدر گہری عقیدت کی مثالیں تاریخ میں بہت کم ملیں گی۔
مسجد قاسم علی خان میں اصلاح اور سیاست کا کام شروع کرنے سے پہلے باچا خان کا بھی اکثر آنا جانا رہتا تھا جہاں سے باچا خان کے خاندان اور حاجی غلام صمدانی پشاوری کے خاندانوں کے رشتے کرائے گئے۔ حاجی غلام صمدانی مسجد قاسم علی خان کے متولی تھے۔
حاجی غلام صمدانی مفتی عبدالحکیم پوپلزئی کے انتہائ معتمد تھے اور دونوں اکٹھے حج کے لئے بھی گئے تھے۔ حاجی غلام صمدانی مسجد قاسم علی خان ہی میں دفن ہیں۔ وہ یحیی جان، یونس جان اور غازی عبدالرحمان شہید پشاوری کے والد تھے۔
باچا خان اور ہزاروں دوسرے لوگوں کی ہجرت کی جو تصویر ہے وہ مسجد قاسم علی خان ہی سے روانگی کی ہے۔
تمام مسلمان رہنما مسجد قاسم علی خان پشاور ہی آ کر اکٹھے ہوتے تھے۔ ان میں سید عبدالمعبود شاہ تلمیذ رشید حاجی امداداللہ مہاجر مکی ،سید حسین احمد مدنی، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، علامہ مشرقی اور ان کے ساتھی بھی۔مفتی عبدالرحیم پوپلزئی کو حج کے لئے الوداع کہنے کے لئے 16 باوردی خاکسار جلوس میں شریک تھے۔ اس جلوس میں مولانا ظفر علی خان، قاری طییب اور مولانا احمد علی لاہوری سمیت سب شامل تھے۔ 1935 اور 1936 کے درمیان پورا ایک سال مولانا عبدالرحیم پوپلزئی اور مولانا عبیداللہ سندھی حجاز میں اکٹھے تھے۔ وہاں وہ دونوں کافی تبادلہ خیال کرتے تھے اور اس دوران ان کا معتقد معزول بادشاہ امیر امان اللہ خان بھی حج کے لئے اٹلی سے آ گیا۔
مولانا عبدالرحیم پوپلزئی نے ایک مرتبہ خود فرمایا کہ امان اللہ خان رو رو کر حرم شریف کے فرش پر اپنے سر کے بالوں سے جھاڑو دیتا تھا مگر لوگوں نے ان کو پھر بھی کافر بنایا۔ سیاسی معاملات میں اخفاء راز کی عادت مفتی عبدالرحیم پوپلزئی میں بھی بہت تھی اور انڈر گراونڈ تحریک سے متعلق مہر بہ لب رہتے تھے۔ وہ حاجی صاحب ترنگزئی اور فقیر ایپی کے مجاہدین کو اتنے رازدارانہ طریقے سے رسید بھیجتے تھے کہ کسی غیر متعلقہ شخص کو پتہ نہ چلتا تھا۔ اکا دکا جو واقعات ان کی وفات کے بعد محمد یونس قریشی یا دوسرے قریبی لوگوں نے اخبار بانگ حرم میں بیان کئے ہیں ان کے علاوہ سب کچھ پردہ اخفاء میں رہا۔ یہاں تک کہ جب حاجی صاحب ترنگزئی نے انتقال فرمایا تو کاکاجی صنوبر حسین کے مطابق مولانا عبدالرحیم پوپلزئی پولیس کے سخت پہرے میں نظر بند تھے۔ وہ حیرت انگیز طور پر حاجی صاحب کی فاتحہ خوانی کے لئے غازی آباد پہنچ گئے تھے اور سب کو حیران کر دیا تھا۔
اس وقت کے پشاور کے اہل تشیع اور بریلوی مکتبہ فکر کے اکابرین بھی یہیں آتے تھے۔ خلافت، مجلس احرار اسلام، کانگرس، نوجوان بھارت سبھا۔ بانی کارکنان مسلم لیگ اور خدائ خدمت گار یہاں آ کر اکٹھے ہوتے تھے یہاں تک کہ ہندو اور سکھوں کے سیاسی کارکن ہمہ تن گوش ہو کر ادب سے تقریر اور خطبات سنتے تھے۔ ہندو سکھ کہتے تھے کہ ان کی باتیں سن کر انہیں بھی روحانی سکون ملتا ہے۔ شمسی مذہب سمیت کئی غیرمسلم آئے دن یہاں آ کر اسلام قبول کرتے رہتے تھے۔
سردار عبدالرب نشتر اور پیر بخش وکیل روزانہ قران مجید کو پڑھنے سمجھنے کے لئے مفتی عبدالرحیم پوپلزئی کے درس میں شریک ہوتے تھے۔ جن پشاوری رہنماوں کے نام مفاد خصوصی کی تاریخ سے حذف کر دیئے گئے ہیں (مثلاً قاضی عبدالولی خان، حکیم محمد امین ندوی، حکیم محمد اسلم سنجری) وہ مسجد قاسم علی خان کے اسی پہلے مرکز میں آکر صلاح مشورہ کرتے تھے۔
پورے صوبے اور آزاد قبائل کے لئے فتاوی یہاں سے حاصل کئے جاتے تھے۔ اور یہاں سے کچھ ایک ہزار سے زائد فتاوی جاری ہوئے۔ مسجد قاسم علی خان ولی اللہی تحریک، ابو الکلام آزاد کی حزب ظ اور انقلاب کی منصوبہ بندی کا مرکز رہی ہے۔
خلافت اور مسلم لیگ کے رہنما ملک شادمحمد کی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ جب امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری خطابت کے میدان میں اترے تو مسجد قاسم علی خان میں بعد از نماز عشاء تقریر کی۔تحریک خلافت صوبہ سرحد (پختونخوا) کے صدر مفتی عبدالحکیم پوپلزئی تقریر سن کر اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے اسی وقت شاہ جی کی تعریف میں برجستہ اشعار کہے۔
1941 میں جب کانگریس کے فارورڈ بلاک کے مرکزی رہنما سبھاش چندر بھوس کلکتہ میں قید سے رہاہو ئے تو انہوں نے داڑھی رکھ لی تھی۔کچھ دن کلکتہ میں قیام کیا اور پھر اپنے قریبی ساتھی، بھگت رام کے ہمراہ پشاور آئے جہاں انہیں مولانا عبدالرحیم پوپلزئی نے سی آئی ڈی کے سخت چیکنگ کے باوجود اپنے قریبی ساتھی عباد خان آف پیرپائی کے ہمراہ ایک ٹرک میں سوار کر کے مہمند پہنچا دیا اور وہاں سے کاکا جی صنوبر حسین نے ان کو مومند کے ایک باثر قبائلی رہنما ملک امین کوڈاخیل کی معیت میں افغانستان پہنچایا تھا۔
مولانا پوپلزئی کی سرپرستی میں پشاور سے ایک اخبار ”سرفروش” نکلتا تھا جو مظلوم طبقات کاترجمان تھا۔ جیل میں ”جنگ آزادی کی تصویر کا دوسرا رخ” نامی کتاب کے ترجمے کرنے پر آپ پر مقدمہ چلا۔ بعد میں جب نوجوان بھارت سبھا کو خلاف قانون قرار دیا گیا تو آپ سوشلسٹ پارٹی کے سرپرست اعلیٰ مقرر ہوئے اور اسی جدوجہد کے سلسلے میں کانگریس میں ترقی پسند بلاک کی تشکیل میں بھی سرگرم رہے۔
آپ اس عرصے میں مزدوروں، کسانوں، خاکروبوں، ریڑھی بانوں اور تانگہ بانوں کی یونین سازی کا کام بھی کرتے رہے۔ اس وقت ہندوستان کی اقتصادی حالت کی شکل کچھ اس طرح سے استوار ہو رہی تھی کہ ایک مخصوص ٹولہ معیشت پر چھا رہا تھا۔ ملک میں ہندو اور پارسی سرمائے کے اتحاد سے ایک مخصوص ٹولہ معیشت پر قبضہ جمانے کے بعد سیاسی اقتدار پر بھی قابض ہو کر برطانوی سرمایہ کا جانشین بننا چاہتا تھا۔ یہ سرمایہ داروں کاٹولہ کانگریس میں پٹیل گروپ کی بالادستی میں بالآخر کامیاب ہو گیا اور سوشلزم کے داعی جواہر لال نہرو بھی اس ٹولے کے سامنے بے بس نظر آئے۔
مولانا صاحب سرمایہ دار طبقے کے مخالف ہونے کی وجہ سے اس پالیسی سے سخت اختلا ف رکھتے تھے اوران کے نزدیک یہی اسلام کی حقیقی روح ہے۔اسی بناء پر سوشلسٹ رہنما انہیں اپنا رفیق مانتے تھے۔ مولانا پوپلزئی کے زمانے میں ان کی انقلابی سرگرمیوں کو روکنے اور انقلابی افکار کو روکنے کے لئے انگریز سرکار اپنے وفادار مقامی ایجنٹوں کے ذریعے یہ پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے کہ اگر انقلاب آ گیا تو مذہب کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔
مولانا صاحب اور انکے رفقاء کے نزد یہ بات کافی تعجب خیز تھی کیونکہ و ہ سمجھتے تھے کہ جاگیرداری اور سرمایہ داری جو کہ اسلام اور مذہبی تعلیمات کی ضد ہیں، اپنے تمام تر گھناؤنے عزائم کے باوجود ملک میں رائج ہے تو اس سے مذہب کو کوئی نقصان نہ پہنچا اور جب انسان دشمن اور مذہب کی بنیادی روح کے منافی رویوں کی مخالفت اور انقلاب کی حمایت کی جائے تو مذہب کو خطرہ لاحق ہو جائے۔ خان ازم اپنے تمام تر مظالم کے ساتھ برقرار رہے تو اسلام محفوظ رہے اور جب خان ازم کی مخالفت میں کوئی آواز اٹھائی جائے تو اسلام کے نام پر خانوں کے ایجنٹ اس ظالمانہ نظام کو رواں دواں رکھنے کے لئے ہر قسم کے انسان دشمن ہتھکنڈوں کے استعمال کو جائز قرار دیں۔
مولانا صاحب ایک عالم دین، ایک اشتراکی کارکن اور مزدور کسان رہنماہونے کے ساتھ ساتھ ایک شعلہ بیان شاعر بھی تھے۔ مولانا صاحب نے غلہ ڈھیر کی تحریک پر ”سرخ ُپوش کسان” کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی۔ 1938میں رہائی کے بعد ہزارہ میں کسانوں کی تحریک کومنظم کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ ہزارہ میں مانسہرہ اور ہری پور کے تحصیلوں میں کسان تحریک کا کام شروع کیا اور مزارعین کو اپنے غضب شدہ حقوق کے حصول کے لئے بیدار کیا۔ اس تحریک کو ہزارہ کے خانوں نے کچلنے کے کافی کوششیں کیں۔
مولانا صاحب پر بالاکوٹ کے علاقے میں قاتلانہ حملے بھی ہوئے۔ 1939 میں مانسہر ہ میں دو عظیم الشان کسان کانفرنسوں کا انعقاد ہوا۔ اسی سال 1939 میں صوبے کی تاریخ میں پہلی بار خاکروبوں کی صوبائی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں مولانا صاحب نے تاریخی خطبہ پڑھا۔ 1940 میں قید کے دوران آپ شدید بیمار ہو گئے اور حالت تشویش ناک ہونے کی وجہ سے رہائی مل گئی۔ 31 مئی 1944 کو آپ اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔